Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل میں دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی

ملک پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل یہاں تقریباً 300 سکھ افغانستان میں موجود تھے (فوٹو: اے ایف پی)
کابل  میں سکھوں کے گردوارے پر سنیچر کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق داعش کی مقامی شاخ نے ایک ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملہ انڈیا کے سیاست دانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سنیچر کو گردوارے کے قریب بارود سے بھری ایک کار میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم دو افراد ہلاک جبکہ سات زخمی ہو گئے تھے۔
کابل کے کمانڈر کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک طالبان جگنجو بھی شامل ہے۔
قبل ازیں خبر رساں ادارے روئٹرز کو گُردوارے کے ایک عہدیدار گُرنام سنگھ نے بتایا تھا کہ ’گُروادرے میں تقریباً 30 افراد موجود تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ طالبان ہمیں اندر جانے نہیں دے رہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا کریں۔‘
ابتدائی طور پر اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی تھی۔
افغانستان پر کنٹرول رکھنے والے طالبان کے مطابق انہوں نے ملک کو محفوظ کر لیا ہے تاہم بین الاقوامی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔
افغانستان میں سکھ ایک چھوٹی سی مذہبی اقلیت ہے۔ ملک پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل یہاں تقریباً 300 سکھ افغانستان میں موجود تھے۔
طالبان کے کنٹرول کے بعد بہت سے سکھ افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔
دیگر مذہبی اقلتیوں کی طرح سکھ بھی مسلسل تشدد کا ہدف بنے ہیں۔ 2020 میں کابل میں ایک گُردوارے پر حملے میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق جمعے کو شمالی شہر قندوز کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک شخص ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا تھا۔

2020 میں کابل میں ایک گُردوارے پر حملے میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب اقوام متحدہ کے افغانستان میں موجود مشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں اقلیتوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے جبکہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں سن کر ’دھچکا‘ لگا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد پہلے ہی بہت تھی ۔ جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا اس وقت پورے ملک نے صرف 300 سکھ خاندان مقیم تھے۔
افغان ذرائع ابلاغ اور سکھ کمیونٹی کے مطابق ان میں اکثر  ابھی افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔

شیئر: