Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکھ سپاہی اورکزئی میں:’جیسے خواب سچ ثابت ہو گیا ہو‘

تقریباً 67 سو فٹ بلند چوٹی پر ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ چوٹی پر ایک درجن لوگ، مضبوط چٹانوں کی مانند، مگر ان کی پیشانیوں پر  پسینے کے قطرے چمک رہے ہیں۔  
گرمی سے نہیں، جذبات کے پسینے سے۔ آنکھوں سے ایک احساس چھلک رہا ہے۔ فخر کا احساس۔ آوازوں میں ایک جوش ہے۔ وابستگی کا جوش۔ 
ان 12 لوگوں میں سے نو لوگ یکایک الگ ہوتے ہیں۔ آٹھ مرد اور ایک عورت۔ 
وہ چوٹی سے پتھر اور اینٹیں چننا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک تھیلا کھولتے ہیں اس میں سے خشک سیمنٹ نکالتے ہیں، پانی کی بوتلوں سے پانی اس سیمنٹ میں ڈالتے ہیں اور اس کا گارا بنا کر اینٹوں اور پتھروں کو جوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
یہ لوگ برطانیہ سے آئے ہیں۔ یہ فوجی ہیں۔ برطانوی فوج کے سکھ فوجی۔  
یہ چوٹی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اورکزئی میں سارا گڑھی کی چوٹی ہے۔ 
یہاں 125 سال پہلے 12 ستمبر 1897 کو21 سکھ فوجیوں کی لڑائی ہوئی تھی۔ ان کی لڑائی 10 ہزار سے زائد قبائلیوں سے ہوئی تھی۔ ایک طرف ہزاروں جنگجو، دوسری طرف 21 سپاہی۔  
یہ سکھ سپاہی اس وقت کی برطانوی فوج کے سپاہی تھے۔ جو افغانستان کے ساتھ انڈیا کے سرحدی علاقوں میں مامور تھے۔ 
جب حملہ ہوا تو ان سکھ سپاہیوں نے اپنے لیے کمک کا جائزہ لیا۔ ایسی کسی کمک کا امکان نہیں تھا جو ہزاروں کے اس لشکر پر انہیں برتری دلوا سکے۔ حملہ آور لشکر نے انہیں ہتھیار ڈال کر اپنے ساتھ مل جانے کی دعوت دی۔ 
سکھ سپاہیوں کے پاس دو راستے تھے، یہ دعوت قبول کر لیتے اور زندگی کی بخشیش کی خاطر اپنے آپ کو حملہ آوروں کے حوالے کر دیتے، یا آخری سپاہی تک لڑتے اور سارے مارے جاتے، مگر اپنے فرض سے سبکدوشی اختیار نہ کرتے۔ 

یہ نوجوان سکھ آفیسرز 21 بہادر سپاہیوں کے جذبے اور جرات کو سلام پیش کرنے آئے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے دوسرا راستہ چنا۔ کئی حملہ آوروں کو مارا اور خود بھی ایک ایک کر کے اپنی جان سے جاتے گئے، مگر اپنے فرض سے کنارہ کشی نہیں کی۔ ان کی پوسٹ پر قبضہ کر لیا گیا۔  
دو روز بعد انگریز فوج کی نئی کمک نے یہ قبضہ چھڑوا لیا۔ 1901 میں سارا گڑھی پوسٹ کے قریب ایک بلند یادگار تعمیر کی گئی۔ اس یادگار پر ان تمام سپاہیوں کے نام جلی حروف میں کنندہ ہوئے، اور ان سپاہیوں کو اس وقت برطانوی فوج کے انڈین اہلکاروں کے اعلٰی ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ 
آج برطانوی فوج کے یہ نوجوان سکھ آفیسرز اس مقام پر ان 21 بہادر سپاہیوں کے جذبے اور جرات کو سلام پیش کرنے آئے ہیں۔ 
انہیں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے خصوصی دعوت پر یہاں بلایا ہے اور  یہ موقع ان کی زندگیوں کے چند اہم لمحات میں سے ایک بن گیا  ہے۔  
اس لمحے کو اپنی زندگی کی خوشگوار ترین یادوں کا حصہ بنانے والے سکھ فوجیوں میں سے ایک کارپورل پردیپ کور  بھی ہیں، جو اس وفد کی واحد خاتون رکن ہیں۔   
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے لیے آج کا دن بہت جذباتی تھا۔ ہم نے اس مقام پر ان 21 سکھ سپاہیوں کے لیے اپنی ایک یادگار بنائی ہے۔ مجھ سے بولا نہیں جا رہا، کیونکہ آج کا دن بہت جذباتی ہے۔‘

اوپندر جیت سنگھ اتوال کے لیے ان کے بچپن کی سنی تمام کہانیاں آج سچ ہو رہی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

جذبات کے غلبے کو قابو رکھنے کی ایک کمزور سی کوشش کے بعد وہ گفتگو دوبارہ شروع کرتی ہیں۔ ’آج یہاں آ کر ہمیں بہت مان ہو رہا ہے۔ بہت زیادہ مان محسوس ہو رہا ہے اس دھرتی پر آ کر  کہ ہم برطانوی فوج کے پہلے سکھ ہیں جنہوں نے یہاں آ کر ان کو  احترام دیا ہے، وہاں قومی ترانہ  گایا ہے، عبادت کی ہے، یادگاری تختی لگائی ہے۔  سب کے لیے یہ فخر کی بات ہے۔ ہم نے آج یہاں تاریخ رقم کی ہے۔‘ 
’ہمارا ہمیشہ سے یہ خواب رہا ہے کہ ہم پاکستان جائیں گے۔ یا نہیں جائیں گے۔ لیکن جو ہمیں برطانوی فوج نے موقع دیا اور جو پاکستان فوج نے ہمیں مان دیا یہاں دعوت دے کر ہم اس کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہماری لاہور میں، راولپنڈی میں اور یہاں پر جو میزبانی کی گئی، وہ بہترین ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ایک خواب سچ ثابت ہو گیا ہو۔‘ 
برطانوی محکمہ دفاع کے تعلقات عامہ کے افسر میجر ہرجوت سنگھ گل کے مطابق ان کا سارا گڑھی کا دورہ دنیا بھر سے مزید سکھوں اور تاریخ دانوں کے پاکستان اور فوجی تاریخ کے اس اہم مقام پر آنے کا رستہ کھولے گا۔
’یہ ایک حیران کن دورہ ہے، حیران کن موقع ہے۔ یہ ایک حقیقی اعزاز ہے کہ ہم 1897 میں مارے گئے سکھ فوجیوں کو  یاد کر سکیں اور آج یہاں آ سکیں۔‘ 
وفد کے رکن اوپندر جیت سنگھ اتوال کے لیے ان کے بچپن کی سنی تمام کہانیاں آج سچ ہو رہی ہیں۔  
’ہم ہمیشہ سے اپنے آباو اجداد سے پاکستان کے بارے میں کہانیاں سنتے آئے ہیں۔ میرے پرداد  اور دادا کی پیدائش یہاں کشمیر سے تھی۔  وہ تقسیم کے بعد ادہر (انڈیا) چلے گیے تھے۔ لیکن ان کے ایک بھائی یہاں ہی رہ گیے، دیکھتے ہیں شاید میں ان کو بھی ڈھونڈ سکوں۔‘ 

سیلیا جے بتایا کہ وہ یہاں اپنے سکھ فوجیوں کو لے کر آئی ہیں تا کہ وہ پاکستان میں سکھوں کے تاریخی اور فوجی ورثے کو دیکھ سکیں (فوٹو: اردو نیوز)

وفد کی سربراہ برطانوی فوج کی ڈپٹی کمانڈر فیلڈ میجر جنرل سیلیا جے ہاروی نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہاں اپنے سکھ فوجیوں کو لے کر آئی ہیں تا کہ وہ پاکستان میں سکھوں کے تاریخی اور فوجی ورثے کو دیکھ سکیں۔  
’ہمیں یہاں آ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ یہ میرے لیے اور سکھ فوجیوں کے لیے ایک شاندار موقع ہے۔‘ 
 ’ہم سب کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ اور ہم سب کسی حد تک حیران ہوئے ہیں، ہمارے لیے یہ حقیقی طور پر پرجوش ہے، گرم جوشی، عزت اور دوستانہ طریقے سے ہمارا استقبال کیا گیا ہے۔‘ 
’پاکستان اور برطانیہ ہمیشہ سے دوست ہیں، ہماری مضبوط اقدار مشترک ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہم اچھائی کے لیے اور ایسے عناصر کو شکست دینے کے لیے اکٹھا کام کرتے ہیں جو ہمارے معاشروں کو تباہ کرتے ہیں۔‘ 
سارا گڑھی سے پہلے وفد نے لاہور کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھی اور قلعہ لاہور، علامہ اقبال کے مزار اور بادشاہی مسجد کا دورہ کیا۔
وہ سکھوں کی مقدس عبادت گاہ دربار صاحب کرتار پور اور دوسرے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے بھی گئے۔ 

شیئر: