Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانون میں ترمیم کے بعد کیا نیب میں کام ٹھپ ہو گیا ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حالیہ ترامیم کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) میں سابق وزرائے اعظم اور صدر کے کیسز سمیت متعدد اہم کیسز پر تفتیش اور کارروائی تعطل کا شکار ہوگئی ہے اور فی الحال نئے مقدمات میں بھی نوٹس اور سمن جاری نہیں کیے جا رہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیب کے علاقائی دفاتر کے متعدد افسران نے بتایا کہ وہ فی الحال صورت حال کے واضح ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اسی وجہ سے متعدد ہائی پروفائل کیسز سمیت نیب ریفرنسز پر عدالتوں سے طویل التوا کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب نیب ہیڈکوارٹرز سے جاری ایک خط کے مطابق نیب کے ملک بھر میں موجود دفاتر کو ہدایت کی گئی ہے کہ نیب ترمیمی ایکٹ 2022 کی ہر سیکشن پر حرف بہ حرف عمل کیا جائے۔
چیئرمین آفس سے جاری خط میں تمام ڈی جیز سے کہا گیا ہے کہ 29 جون کو نیب ہیڈکوارٹرز میں قائم مقام چیئرمین نیب کی زیرصدارت آپریشنز اور پراسیکیوشن کے شعبوں کے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ترمیمی قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی ابہام کی صورت میں نیب ہیڈکوارٹرز سے رابطہ کیا جائے۔
تاہم اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ نیب افسران قانون کے گذشتہ تاریخوں میں لاگو ہونے کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں اور اس حوالے سے انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار ہے۔
کون سے بڑے کیسز متاثر ہو رہے ہیں؟
ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انہیں اب نہیں معلوم کہ متعدد ہائی پروفائل کیسز میں کیا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ عدالتوں سے طویل التوا کی درخواست کی جا رہی ہے۔‘
نیب ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ کیس شاید موجودہ قوانین کی وجہ سے بند ہونے والا پہلا کیس ہوگا کیونکہ نئی ترامیم کے تحت کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ کیس شاید بند ہونے والا پہلا مقدمہ ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008 میں توشہ خانہ قوانین میں ترمیم کرکے آصف زرداری اور نواز شریف کو  صرف 15 فیصد رقم کی ادائیگی کرکے غیرملکی سربراہان سے تحفے میں ملنے والی گاڑیاں دینے کی منظوری دی تھی۔
نیب ذرائع کے مطابق ترمیمی قانون سے پیدا ہونے والے ابہام سے ہائی پروفائل کیسز جیسے کہ سابق صدر آصف زرداری اور دیگر افراد کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس سمیت دیگر کیسز پر کارروائی آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔
نیب کے ترجمان نوازش علی خان عاصم نے رابطہ کرنے پر کوئی موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے نئے قانون کا حوالہ دیا جس کے تحت نیب افسران ریفرنس فائل ہونے سے قبل کیسز پر میڈیا سے بات کرکے میڈیا ٹرائل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
تاہم نیب ہیڈکوارٹرز میں ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو موقف دیا کہ نیب میں سارے کام نہیں رکے ہوئے تاہم کچھ کاموں میں تعطل کی وجہ یہ ہے کہ نیب کو وزارت قانون کی رائے کا انتظار ہے۔

سابق پراسیکیوٹر جنرل راجا عامر عباس کا کہنا تھا کہ ’جو نیا قانون پاس ہوا ہے اس سے نیب غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے.‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

نیب کے سابق افسران کیا کہتے ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل راجا عامر عباس کا کہنا تھا کہ ’نیب کو قانون کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے تاہم جو نیا قانون پاس ہوا ہے اس سے نیب غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے۔‘
’موجودہ ترامیم سے نیب ایک بغیر دانتوں کے شیر بن چکا ہے۔‘ انہوں نے خاص طور پر آمدن سے زائد اثاثوں کے حوالے سے کی جانے والی ترمیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’سیکشن 14 میں کہا گیا ہے کہ کسی سرکاری عہدیدار کے پاس اگر بظاہر آمدن سے زیادہ اثاثے ہوئے تو اب نیب کو اس پر ایکشن سے قبل ثابت کرنا ہو گا کہ اس نے وہ اثاثے کرپشن سے بنائے جبکہ پہلے اس افسر کو خود منی ٹریل دے کر ثابت کرنا پڑتا تھا کہ وہ اثاثے کرپشن سے نہیں بنائے۔‘
تاہم نیب کے ہی سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ، راجا عامر عباس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اداروں کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور باقی تمام اداروں کو اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔‘
’نیب کے افسران اگر کام روکے ہوئے ہیں تو پھر انہیں تنخواہ بھی نہیں لینی چاہیے کیونکہ ابھی تک اس معاملے پر کسی عدالت کا کوئی حکم نہیں کہ قانون پر عمل درآمد روکا جائے۔‘

عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق ’موجودہ حکومت وہی ترامیم لائی ہے جو پی ٹی آئی حکومت آرڈیننس کے ذریعے لائی تھی‘ (فائل فوٹو: سینیٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ’نیب کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق تفتیش کرکے کیسز کو آگے بڑھانا چاہیے۔ نیب کے 95 فیصد کیسز آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے ہوتے ہیں۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے موجودہ حکومت کم و بیش وہی ترامیم لائی ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے دور میں آرڈیننس کے ذریعے لائی گئی تھیں اس لیے جب نیب افسران پہلے ان کے مطابق کام کررہے تھے تو اب ان ہی کے مطابق کام کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟‘
سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم ہونے کے بعد اس کیس کی سماعت کی تاریخ کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔  
گذشتہ ماہ عمران خان نے نیب ترامیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیب قانون تبدیل کر کے آصف زرداری، شہباز شریف اور ان کے خاندان بچ جائیں گے۔ نئی ترمیم کے مطابق کسی کی جائیداد آمدن سے زیادہ ہے تو یہ بات نیب کو ثابت کرنا ہوگی۔‘

عمران خان نے کہا تھا کہ ’نیب قانون تبدیل کر کے آصف زرداری، شہباز شریف اور ان کے خاندان بچ جائیں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ان کے خلاف آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس ہیں۔ انہوں نے ترمیم کر دی کہ اثاثے کہاں سے آئے یہ نیب ثابت کرے۔ ان ترامیم سے آمدن سے زیادہ اثاثوں والے سارے بچ جائیں گے۔‘
تاہم  وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس بارے میں رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’24 ترامیم پر قومی اسمبلی میں گھنٹوں بحث ہوئی، نیب ترمیمی بل کو اسمبلی سے منظور کروایا گیا اور ترامیم اعلٰی عدلیہ کے کہنے اور آئین کے مطابق کی گئیں۔‘
’ترامیم کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے معاملے میں شرائط طے کر دی گئی ہیں۔ نیب قوانین سیاسی مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔‘
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’ان قوانین کی وجہ سے بیوروکریسی نے کام چھوڑ دیا تھا۔ نیب قوانین کے غلط استعمال کو روکا گیا ہے۔نیب ترامیم گذشتہ دور حکومت بھی کی گئیں اور 80 فیصد ترامیم عمران خان کے دور میں کی گئیں۔‘

شیئر: