Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغیر حلقے کے سیاستدان نقصان اٹھاتے ہیں یا فائدہ؟

شہباز گِل سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط تھے۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل آج کل اداروں میں بغاوت اکسانے کے مبینہ کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ کبھی جیل میں منتقل ہو رہے ہیں تو کبھی تھانے اور ہسپتال میں۔
جب نو اگست کو شہباز گِل گرفتار ہوئے تو اگلے دو دنوں تک پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت ان سے ملنے نہ آئی اور حتٰی کے انہیں کپڑے، کھانا وغیرہ فراہم کرنے کے لیے بھی پارٹی کا کوئی رہنما یا کارکن نہیں آیا۔
اگرچہ بعد میں پارٹی کارکنوں اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے دیگر رہنما ان سے ملنے آئے اور جمعے کو عمران خان بھی ان سے ملنے پمز ہسپتال گئے جہاں انہیں ملنے نہ دیا گیا لیکن ایسا کرنے میں انہیں 10 دن لگے۔
شہباز گِل نے مشکل وقت سے قبل عروج بھی دیکھا اور وہ بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے سنہ 2018 کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔
تاہم وہ سیاست میں الیکشن لڑ کر نہیں آئے بلکہ عمران خان کے قریب رہتے ہوئے اہم عہدوں پر فائز رہے۔
بغیر حلقے کے کون کون سے سیاستدان ہیں؟
شہباز گِل وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط کے علاوہ وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے بھی معاون خصوصی برائے اطلاعات رہ چکے ہیں۔
بغیر کسی انتخابی حلقے کے اعلیٰ عہدوں کا لطف اٹھانے والوں میں شہباز گِل اکیلے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے زلفی بخاری، شہزاد اکبر اور رزاق داؤد کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، مصدق ملک، عرفان صدیقی، عطا تارڑ، پاکستان پیپلز پارٹی کی ناہید خان، رحمان ملک، شیری رحمان اور قیوم سومرو ایسے سیاستدان ہیں جنہیں بغیر الیکشن لڑے اپنے اپنے وقت میں وزارتیں اور اہم عہدے ملے۔
یہ تمام لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں کئی بڑے بڑے سیاسی ورکروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور قیادت کا اعتماد حاصل کر کے اہم عہدوں پر پہنچے۔

عمران خان اپنے چیف آف سٹاف سے ملنے پمز ہسپتال گئے جہاں انہیں ملنے نہ دیا گیا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

سیاسی قیادت کے قریب مگر جماعت اور عوام سے دور؟

سیاسی ماہرین کے مطابق بغیر حلقے کے وزرا اور مشیر اپنی صلاحتیوں کی وجہ سے سیاسی قیادت کے قریب تو ہو جاتے ہیں مگر اپنی ہی جماعت کے قریب نہیں ہو پاتے۔ اس وجہ سے جب ان پر مشکل آتی ہے تو یہ تنہا رہ جاتے ہیں۔
سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ایسے افراد کے پاس پارٹی کا مینڈیٹ بھی نہیں ہوتا اور سیاسی تربیت بھی نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بڑی سیاسی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور خود کو اور اپنی جماعت کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لوگ سیاست کو سمجھتے نہیں مگر اعتماد کے ساتھ دعوٰی کرتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہیں۔ اگر یہ غصے میں ہوں تو غصے میں ہی بول دیتے ہیں۔ جبکہ سیاسی کارکن بولتے ہیں تو اس کے کئی پہلو سوچتے ہیں اور اکثر لکھ کر لے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق کسی کا بریف کیس اٹھا کر خوشامد کر کے اقتدار کے مزے لینے والوں اور حلقے کی سیاست کرنے والوں میں فرق ہوتا ہے اور حلقے کی سیاست کرنے والے ایسی باتیں نہیں کرتے۔
دوسری طرف اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لاہور کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ غیر سیاسی لوگ صرف لیڈرشپ کو سامنے رکھ کر چلتے ہیں۔ وہی بولتے ہیں جو لیڈرشپ کو پسند ہو اور اس کے لیے کریز سے باہر جا کر بھی کھیلتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بجائے ان کی قیادت زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ اس لیے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے لیے ہر سیاسی قیادت کے پاس جگہ ہوتی ہے۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’ایسے لوگوں کے ساتھ مشکل وقت میں پارٹی کھڑی بھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ چور دروازے سے سیاست میں داخل ہوئے ہوتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے پرویز رشید بھی الیکشن لڑے بغیر اہم وزارت پر فائز رہے۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیاسی قیادت بھی ایسے لوگوں سے جو کام لے سکتی ہے وہ کام وہ ارکان اسمبلی اور دیگر وزرا سے نہیں لے سکتی۔ غیر منتخب لوگ اپنی بقا کے لیے لیڈرشپ کی قربت ڈھونڈتے ہیں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ کیا غیر سیاسی لوگ زیادہ مظلوم ہوتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بغیر کسی انتخابی حلقے کے سیاستدانوں کو کبھی کبھی اس طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر زیادہ تر وہ فائدے میں ہی رہتے ہیں اور بغیر کچھ قربانی دیے سیاسی قیادت کے قرب اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفید ہوتے ہیں۔

شیئر: