Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارٹی دفتر میں نئی سرگرمیاں، مریم نواز ن لیگ کو بھنور سے نکال پائیں گی؟

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پارٹی کو ازسرنو ترتیب پر سوچ بچار شروع ہوئی تھی (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں حکمران اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ ن آج کل سیاسی مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں جاری مہنگائی کی لہر ہے۔ ان سیاسی مشکلات کا اندازہ گزشتہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہو گیا جب مسلم لیگ ن کو 20 میں سے صرف چار سیٹوں پر فتح حاصل ہوئی۔
ان حالات میں پارٹی کے اندر وسیع پیمانے پر سوچ بچار کا عمل شروع ہوا تو بات اس نتیجے پر پہنچی کہ جماعت کو ازسر نو ترتیب دیا جائے۔
پارٹی کے اعلٰی عہدیدار نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی کی اکثریتی رائے یہ تھی کہ پارٹی کی عملی باگ ڈور مریم نواز کے حوالے کی جائے۔
ان کے مطابق ’یہ فیصلہ اب ہو چکا ہے اور اس حوالے سے تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ مریم نواز مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹاون میں واقع مرکزی دفتر 180 ایچ میں باقاعدگی سے بیٹھیں گی اور پارٹی کو نئے سرے سے منظم کریں گی۔‘  
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق ن لیگ کے مرکزی دفتر میں مریم نواز کے لیے الگ دفتر بنایا جا رہا ہے جس کی تزئین و آرائش کا کام دن رات جاری ہے۔ اس دفتر میں وہ تنظیمی نمائندوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں گی۔  

ماڈل ٹاؤن میں حمزہ شہباز کے زیراستعمال رہنے والا دفتر اب مریم نواز کے پاس ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ مریم نواز پارٹی کی نائب صدر ہیں۔ اس سے پہلے یہ دفتر حمزہ شہباز پارٹی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے تھے جبکہ مریم نواز جاتی امرا رہائش گاہ سے ہی پارٹی امور دیکھتی تھیں۔
پارٹی کے اندر مریم نواز کو اختیارات دیے جانے کے بعد انہوں نے دو مرتبہ اپنی ہی حکومت کی پالیسوں پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ پہلا ٹویٹ انہوں نے تاجروں پر لگائے گئے اضافی ٹیکس پر کیا جو بعد ازاں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے واپس لے لیا۔ دوسرا ٹویٹ انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر کیا۔  
لیگی رہنما نے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ پارٹی کے اندر اس وقت شدید اضطراب ہے اور پارٹی کی اکثریت میاں نواز شریف کی واپسی چاہتی ہے۔
’جو سیاسی حالت تحریک انصاف کے آخری دنوں میں تھی وہی اب مسلم لیگ ن کی ہے۔ جس جماعت کا ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا تھا اب اس کے اپنے اراکین اسمبلی تذبذب میں ہیں پارٹی کو ایک نیا بیانیہ اور متحرک قیادت چاہیے اور میاں صاحب کے آنے سے پہلے یہ کام صرف مریم نواز ہی کر سکتی ہیں۔‘  
شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اس وقت ن لیگ کے پاس مریم نواز کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، اس لیے انہیں پارٹی کے اختیارات سونپے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف واپسی کا سوچ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’پارٹی اس وقت بالکل بھی خوش نہیں ہے اور اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس کچھ بچا ہے تو وہ نواز شریف ہی ہیں۔ ان کی واپسی کی خبریں بھی سن رہے ہیں لیکن مریم نواز ان کے آنے سے پہلے سیاسی پچ بنائیں گی۔‘  
جب سلمان غنی سے یہ پوچھا گیا کہ مریم نواز کو اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی ذمہ داری نہیں ملی تو کیا وہ ان مشکلات سے پارٹی کو نکال لانے کی اہلیت رکھتی ہیں؟
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کو اب تک صرف ایک ہی ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے لوگوں کو باہر نکالیں انہوں نے یہ کام بہت اچھے طریقے سے کیا ہے۔ میرا خیال یہی ہے کہ انہوں نے پارٹی کے اندر اپنی جگہ بہت تیزی سے بنائی ہے اس لیے پارٹی ان پر اعتماد کرنا چاہتی ہے۔‘  
دوسری جانب سیاسی پنڈت یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پارٹی نے مرکز میں حکومت لے کر جو سیاسی نقصان کیا ہے وہ صرف مریم نواز شاید درست نہ کر سکیں۔ ماڈل ٹاون دفتر میں البتہ سارا ماحول بدل چکا ہے اور پارٹی کو نئے طریقے اور بیانیے سے اپنے سیاسی خلا کو پُر کرنے لیے مریم نواز تیار دکھائی دے رہی ہیں۔  

سلمان غنی کے مطابق ’مریم نواز نے لوگوں کو نکالنے کا ٹاسک بہت اچھے طریقے سے پورا کیا ہے‘ (فوٹو: پی ایم ایل این)

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ سیاسی صورت حال تمام اندازوں سے مختلف ثابت ہوئی ہے۔ جن کو فائدہ ہو رہا ہے ان کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا اور جو بظاہر نقصان میں جا رہے ہیں انہوں نے بھی ایسا نہیں سوچا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے مریم نواز کو ایکٹیو کرنا اصل میں نواز شریف کی واپسی کی تیاری ہے اور اگلے انتخابات کے لیے صف بندی ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کی توجہ اس وقت حکومت اور اقتصادیات پر ہے۔ سیاسی فرنٹ تقریباً خالی ہے۔ اس لیے بھی شاید میاں صاحب اب واپسی کا سوچ رہے ہیں۔‘  

اعلٰی عہدیدار کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ عملی باگ ڈور مریم نواز کے حوالے کی جائے (فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر)

مریم نواز کے پولیٹیکل سیکریٹری ذیشان ملک نے مریم نواز کے نئے سیاسی رول پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
جب اردو نیوز نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی تصدیق، البتہ یہ بتایا کہ مریم نواز 15 اگست کو ماڈل ٹاون دفتر آئیں اور انہوں نے تزئین و آرائش کے کاموں کا جائزہ لیا۔    

شیئر: