Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک نظر ادھر بھی

لسانیت ، فرقہ واریت ، صوبائیت جیسے زہرآلود نعروں سے نکلنے والی قوم کو مذہب سے بیزار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں
* * * محمد عتیق الرحمن۔ فیصل آباد* * *
پاکستان تیزی سے تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ایک طرف اگر یہ تبدیلی مثبت ہے تو دوسری طرف یہ تبدیلی منفی پہلو بھی ساتھ لئے ہوئے ہے ۔پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں ۔لسانیت ، فرقہ واریت ، صوبائیت جیسے زہرآلود نعروں سے نکلنے والی قوم کو مذہب سے بیزار کرنے کی کامیاب کوششیں ہورہی ہیں ۔
پچھلے دنوں 2واقعات کسی دینی درس گاہ میں نہیں ہوئے بلکہ دنیاوی درس گاہوں میں ہوئے اوران واقعات نے مجھ پر بہت کچھ عیاں کردیا۔ مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہوئے اندوہناک واقعہ میں جہاں توہین رسالت کو استعمال کیا گیا وہیں یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرکے ان سے غیر شرعی کام کروانے پر ابھارا گیاتاکہ ملک میں انارکی پھیلے ۔ مشال خان کے قتل کی تحقیقات کے بعد جو کچھ سامنے آرہا ہے اس سے اندرون خانہ کچھ اور ہی نظر آرہا ہے ، بہرحال اگر مشال خان توہین رسالت کا مرتکب ہوا بھی تھا تو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ تو اسلام دیتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا آئین، اسلام تو لاش کا مثلہ کرنے سے منع کرتا ہے چہ جائیکہ زندہ انسان کی بے حرمتی کی جائے اس کے کپڑے پھاڑ کر اسے ننگا کردیا جائے ۔ دوسرا واقعہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کی سال دوئم کی طالبہ نورین لغاری کی10فروری کو پراسرارگمشدگی ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے دکھا ئی گئی ویڈیو میں نورین لغاری کا اعترافی بیان ہے جس میں اس نے کالعدم تنظیم سے تعلق ، لاہور میں مسیحی برادری کے ایسٹر تہوار پر خودکش حملے کا اعتراف کیااور یہ بھی بتایا کہ وہ اغوا نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنی مرضی سے لاہور آئی تھی ۔نورین کے والد سندھ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیںیعنی نورین لغاری ہماری طرح ایک عام سے مسلمان گھرانے سے ہے اس کا کسی مذہبی خاندان سے تعلق نہیں۔
دونوں واقعات میں باہمی کوئی ہم آہنگی نہیں لیکن صرف ایک بات مشترکہ ہے کہ اس بار دنیاوی درس گاہوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں ۔اسلام کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اسلام اپنے ماننے والوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور گناہ گار کو خودکی عدالت میں سزا دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ہورہی گستاخیوں سے پورا پاکستان غم وغصہ میں ڈوبا ہواتھا لیکن دینی طبقہ نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے عدالتی راہ کو چنا جوثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا دینی طبقہ قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے اور اپنے مسائل کو حل کرنے کا متمنی ہے۔ اسلام وپاکستان دشمن عناصر ایک نئے لبادے میں ہمارے سامنے براجمان ہوچکے ہیں ۔طبل جنگ بج چکا ہے ، نقارے پر چوٹ پڑ چکی ہے اور دشمن نے جنگی جھنڈے لہرا کر اپنی سب سے خطرناک جنگی چال چل دی ہے ۔اس وقت ہمارے نازک وحساس ترین عقیدے پر دشمن وار کرچکا ہے ۔ ذاتی دشمنی وعناد کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر قانون کو ہاتھ میں لینے کا کام بخوبی سرانجام دیا جارہاہے ۔حکومت وعدے پر وعدے کررہی ہے اورعوام الناس کو مایوسی میں دھکیلنے کے لئے مایوس کن خبروں کو بریکنگ نیوز بنا کرچلایا جارہا ہے اور داعش جیسی تنظیمیں ملک میں پائوں جمانے میں مصروف عمل ہیں ۔ ملک بھر میں ردالفساد آپریشن ہورہا ہے لیکن کیا دہشت گردی سے نمٹنا صرف سیکیورٹی اداروں کا کام ہے ؟ احسان اللہ احسان جیسے تکفیری سوچ کے حامل دہشت گرد اگرچہ اپنے آپ کو ریاست کے حوالے کرچکے لیکن کیا ان کے ساتھ ان کے نظریات بھی دفن ہوجائیں گے ؟ پاک فوج اور سیکیورٹی ادارے اپنا کام بخوبی کررہے ہیں لیکن سیاست دان اور دیگر ادارے ان کے کئے کرائے پر پانی پھیررہے ہیں۔ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا کس کا کام ہے؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ملک بھر میں دہشت گردوں کو ڈھونڈڈھونڈ کر نکال رہے ہیں۔کلبھوشن یادو جیسے کئی روپ ہمارے اردگرد موجود ہیں جو ملک کے امن وسکون کو تباہ وبرباد کرنے کی غرض سے سیاسی، سماجی ،مذہبی و اخلاقی قدروں کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔

شیئر: