Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میٹرک کے نتائج: لاہور پنجاب کے تعلیمی بورڈز سے پیچھے کیوں؟

ترجمان لاہور بورڈ قیصر ورک کے مطابق ’ہمارا اس بات میں کوئی عمل دخل نہیں کہ بچوں کی کارکرگی کیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: بائس لاہور)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حال ہی میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا ہے۔ صوبہ بھر کل نو تعلیمی بورڈز ہیں ان نتائج کی رو سے ڈیرہ غازی خان بورڈ میں بچوں کے پاس ہونے کی شرح سب سے زیادہ یعنی 77 فیصد اور لاہور بورڈ میں میٹرک کے بچوں کے پاس ہونے کی شرح تمام بورڈز سے کم یعنی 66 فیصد رہی ہے۔
ان نتائج کے مطابق دوسرے نمبر پر ملتان اور تیسرے نمبر پر فیصل آباد ہے۔ یہ نتائج مجموعی طور پر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے ہیں۔ ان نتائج کے بعد ضلع لاہور اور لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں تعلمی معیار پر ایک سوال کھڑا ہو گیا ہے۔
ترجمان لاہور بورڈ قیصر ورک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ہوئے بتایا کہ ’لاہور بورڈ یا کوئی بھی بورڈ ایک ایگزمننگ باڈی ہے۔ ہم نے صرف ایک طے شدہ طریقے سے امتحانات لینے ہوتے ہیں اور طے شدہ طریقے سے ہی پرچے چیک کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارا اس بات میں کوئی عمل دخل نہیں کہ بچوں کی کارکرگی کیا ہے۔‘
انہوں نے تصدیق کی کہ اس مرتبہ لاہور بورڈ سے میٹرک کے پاس ہونے والے بچوں کی شرح 66 فیصد ہے جو باقی بورڈز کے مقابلے میں سب سے کم رہی ہے۔
’لیکن یہ ہماری کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں بلکہ لاہور بورڈ سے منسلک تعلیمی اداروں خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی یہ ان کا معاملہ ہے۔‘
خیال رہے کہ اس سال لاہور بورڈ کے ذریعے اڑھائی لاکھ بچوں نے میٹرک کے امتحانات دیے تھے۔
پنجاب کے دیگر تعلیمی بورڈز میں پاس ہونے کی شرح کے اعتبار سے راولپنڈی بورڈ چوتھے، گوجرانوالہ پانچویں، سرگودھا چھٹے، بہالپور ساتویں، سائیوال آٹھویں اور لاہور نویں نمبر پر رہا ہے۔

اس سال لاہور بورڈ کے ذریعے اڑھائی لاکھ بچوں نے میٹرک کے امتحانات دیے تھے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

نجی سکولوں کی تنظیم  کے سربراہ کاشف مرزا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ لاہور اور اس کے نواحی شہروں اور قصبوں میں تعلیمی کا معیار باقی علاقوں سے کم ہوا ہے۔ میں نے پوری تاریخ میں لاہور کا اتنا گندہ نتیجہ نہیں دیکھا۔‘
’اس خراب نتیجے کی ایک بڑی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ کورونا میں بچوں کو رعایتی نمبر اور فرضی نمبر دے کر پاس کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ بڑے شہروں میں ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جانکاری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے بڑے شہروں کے بچوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ شائد اس بار بھی رعایتی نمبروں سے وہ پاس ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کاشف مرزا کا مزید کہنا تھا کہ ’بچوں نے بھی تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے حکمرانوں نے کورونا کی آڑ میں تعلیم سے کھلواڑ کیا ہے۔ میں مطالبہ کروں گا کہ جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

شیئر: