Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانسٹیبل طارق نے لِفٹ لے کر دو حملہ آوروں کو کیسے دبوچا؟

ڈی پی او ننکانہ سید خالد محمود ہمدانی نے کانسٹیبل طارق کو تعریفی سند اور نقد انعام دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
یہ ننکانہ صاحب شہر میں ایک معمول کی صبح تھی۔ آٹھ بجے دفاتر کھل چکے تھے۔ شہر کی کچہری کے دروازے پر سکیورٹی کی ڈیوٹی دینے والے کانسٹیبل طارق بھی کندھے پر بندوق لٹکائے ہر آنے جانے والے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔
ہشاش بشاش کھڑے کانسٹیبل طارق کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ٹھیک 20 منٹ بعد انہیں کسی غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔
اور پھر کچہری کے اندر سے اچانک فائرنگ کی آواز آئی اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا شروع ہوئے۔
کانسٹیبل طارق نے بھی جس طرف سے گولیاں چلنے کی آواز آ رہی تھی ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ ان کی نظریں گولیاں چلانے والوں کو تلاش کر رہی تھیں۔
وہ ایک وکیل کے چیمبر کے قریب پہنچے جہاں کچھ افراد خون میں لت پت پڑے تھے۔ وہ دوڑ کر نئے بننے والے چیمبرز کی پچھلی جانب گئے جہاں سے ابھی فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے دو موٹر سائیکل سوار پستول اٹھائے ہوائی فائرنگ کرتے پچھلی سڑک سے فرار ہو گئے۔
موٹر سائیکل پر بھاگنے والوں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ طارق کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اتنی دیر میں انہوں نے دیکھا کہ دوسری طرف سے ایک موٹر سائیکل سوار آ رہا ہے۔ انہوں نے اسے لفٹ کے لیے روکا اور درخواست کی کہ جانے والے موٹر سائیکل سواروں کے پیچھے چلے اور وہ مان گیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے طارق نے بتایا کہ ’میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت تھا۔ دوسرا ان کے ہاتھوں میں اس وقت ہتھیار نظر نہیں آ رہے تھے اور نہ ہی اس راہگیر موٹر سائیکل سوار کو اس لفٹ لینے کا مقصد معلوم تھا اس لیے بھی وہ ہچکچایا نہیں۔ بیٹھتے ساتھ ہی میں نے اس کو جوش دلانا شروع کر دیا اور اس نے موٹر سائیکل کو پوری رفتار سے چلانا شروع کر دیا۔‘
کانسٹیبل طارق نے کہا کہ ایک سال قبل بھی ننکانہ کچہری میں ایسے ہی قتل ہوا تھا اور مارنے والے اس پچھلی سڑک سے فرار ہوئے تھے۔
’اس وقت سے ہی میرے ذہن میں تصور میں تھا کہ اگر دوبارہ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا ہوا تو اس طرف جانا ہے جہاں سے بھاگنے کا راستہ موجود ہے۔ کیونکہ اس جگہ نئے چیمبر تعمیر ہو رہے ہیں اور ابھی بیرونی دیوار نامکمل ہے۔‘

ڈی پی او ننکانہ سید خالد محمود ہمدانی کے مطابق اہلکاروں نے اپنے دماغ اور اپنی ٹریننگ پر بھروسہ کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

حملہ آوروں کو کیسے دبوچا؟

جیسے ہی موٹر سائیکل حملہ آوروں کے قریب پہنچی طارق نے اپنی بندوق اُن پر تان لی۔ اس لمحے کے متعلق بتاتے ہوئے طارق کا کہنا تھا کہ ’مجھے زیادہ خدشہ اس بات کا تھا کہ لفٹ دینے والے موٹر سائیکل سوار راہگیر کو کوئی نقصان نہ پہنچے جس کو پتا ہی نہ تھا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ اس وقت تک دونوں حملہ آوروں نے اپنے پستول ڈب میں لگا لیے تھے۔ میں نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے چلتی موٹر سائیکل پر بندوق تان لی۔‘
دونوں حملہ آوروں کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ انہوں نے صورت حال سمجھنے کے لیے موٹر سائیکل آہستہ کی اور اسی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کانسٹیبل نے اپنی ٹانگ سے ان کی موٹر سائیکل گرا دی اور اپنی موٹر سائیکل سے چھلانگ لگا کر دونوں کو دبوچ لیا اور سب سے پہلے ان کے ہتھیار قبضے میں لیے اور اس وقت تک ان پر بندوق تانے رکھی جب پیچھے سے پولیس کی کمک نہیں پہنچی۔
فوری طور پر پہنچنے والے طارق کے دو ساتھی پولیس اہلکار تھے جن کی ڈیوٹی بھی کچہری گیٹ پر تھی۔

حملہ آور کون تھے؟

دونوں حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا اور کیس کی تفتیش شروع کر دی۔ تھانہ سٹی ننکانہ ایس ایچ او تصور منیر کے مطابق ان دونوں حملہ آوروں کی شناخت حسنین اور قدیر کے نام سے ہوئی۔ ان دونوں نے ایک وکیل  فیضان الرحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
’ان کی وجہ عناد یہ تھی کہ ان کا ایک قریبی رشتہ دار کچھ عرصہ قبل قتل ہوا تھا۔ جس میں دیگر ملزمان کے ساتھ ان وکیل صاحب پر بھی الزام تھا۔‘
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت وکیل فیضان الرحمان تو محفوظ رہے البتہ ان کے چیمبر میں تین افراد زخمی ہوئے جن میں ایک کینٹین پر کام کرنے والا تھا۔ تینوں زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

دونوں موٹر سائیکل سوار  پستول اٹھائے ہوائی فائرنگ کرتے پچھلی سڑک سے فرار ہو رہے تھے۔ (فائل فوٹو)

تعریفی سند اور نقد انعام

ملزمان کے پکڑے جانے کی خبر جلد ہی ضلع ننکانہ صاحب کی انتظامیہ تک پہنچ چکی تھی۔
ڈی پی او ننکانہ سید خالد محمود ہمدانی نے کانسٹیبل طارق کو تعریفی سند اور نقد انعام دیا۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او ہمدانی کہنا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی بہادری  کا واقعہ ہے جس پر انہیں فخر ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ ایک خطرناک صورتحال تھی جو پولیس کے کم وسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ
’وسائل کی بحث ایک طرف لیکن اگر آپ اس واقعے کو غور سے دیکھیں تو اس میں بہادری کے ساتھ ساتھ اصل بات حاضر دماغی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کانسٹیبل طارق اور دیگر دو پولیس اہلکاروں کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ وہ وائرلیس پر اطلاع دے سکتے تھے لیکن اس میں وقت ضائع ہونا تھا۔
’انہوں نے اپنے دماغ اور اپنی ٹریننگ پر بھروسہ کیا۔ جس وقت وہ موٹر سائیکل پر ان حملہ آوروں کو پیچھا کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے موبائل سے اپنے ساتھیوں کو اطلاع دے دی تھی اور وائرلیس بھی کروا دی تھی۔ پولیس الرٹ ہو چکی تھی لیکن وہ وقت ضائع ہونے کے بجائے استعمال ہو گیا۔‘

شیئر: