Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سیاسی کشمکش‘، کیا پنجاب پولیس دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے؟

25 مئی کو لانگ مارچ کے موقعے پر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے اور یہاں کے وزیراعلٰی پرویز الہی ہیں۔
اس نئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی دعویٰ کیا تھا کہ 25 مئی کو پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے والے پولیس افسران اور احکامات دینے والی ن لیگی قیادت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
اس حوالے سے اب تک پنجاب پولیس کے چھوٹے بڑے 30 افسران کے تبادلے اور ان کے خلاف انکوائری شروع کی گئی جبکہ ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بھی مقدمات اور پکڑ دھکڑ کا آغاز کیا گیا۔
اس وقت سابق ایم پی اے نذیر چوہان اور طاہر مغل نامی لیگی ایکٹوسٹ کی گرفتاریاں ایسی ہیں جو منظر عام پر ہیں۔
پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے پولیس افسران اور لیگی رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ٹاسک ایک پانچ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا تھا جس میں تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد اور میاں اسلم سمیت تین پولیس کے اعلٰی افسران رکھے گئے تھے۔
ناگزیر وجوہات کی بنا پر ابھی تک ن لیگ کے خلاف اس پیمانے پر کارروائیاں دیکھنے کو نہیں ملیں جن کی پی ٹی آئی کے کارکنان توقع کر رہے تھے۔
اب  کئی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ جیسے پولیس کے کئی افسران ’سیاسی انتقام‘ کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔

پنجاب کے وزیراعلٰی نے کہا کہ 25 مئی کا حساب ہر صورت لیا جائے گا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کون سے پولیس افسران ہچکچا رہے ہیں؟

لاہور پولیس کے ایک اعلٰی عہدے پر فائز پولیس افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انویسٹی گیشن ونگ کے دو افسران ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور اور ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ ان تمام مقدمات کی فہرست نکالیں جن میں لیگی کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا اور جن جن مقدمات میں وہ اشتہاری ہیں اور ضمانتیں نہیں لیں ان میں انہیں گرفتار کیا جائے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون سے مقدمات ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ لاہور کے چار تھانوں میں (سول لائنز، ریس کورس، پرانی انار کلی اور لٹن روڈ شامل ہیں) لیگی رہنماؤں اور کارکنوں پر احتجاج اور دیگر الزامات میں ایک درجن سے زائد مقدمات درج ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک مقدمہ نیب آفس پر حملے کا تھانہ چوہنگ میں درج کیا گیا تھا جس میں مریم نواز بھی نامزد ہیں اور وہ اشتہاری ہیں انہوں نے اس میں ضمانت بھی نہیں کروائی اور اس مقدمے میں دہشتگردی کی دفعہ شامل ہے۔
دونوں پولیس افسران نے اعلٰی حکام کو صاف بتا دیا ہے کہ وہ کسی سیاسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق ان افسران کے تبادلے کرنے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔
اس حوالے سے جب آئی جی آفس اور لاہور پولیس سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو دونوں دفاتر سے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
تاہم وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پولیس ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے کوئی بھی افسر اگر اپنے آئینی اور قانونی فرائض انجام نہیں دے گا تو وہ ٹیم کا حصہ بھی نہیں ہوگا۔ 25 مئی کو جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ جب پی ٹی آئی کارکنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس کا حساب ہر صورت لیا جائے گا۔‘

25 مئی کو پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور پولیس کے اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’معاملہ محض ن لیگ کا نہیں۔ فورس کے اندر اصل تذبذب اس بات کا ہے کہ موجودہ حکومت ان پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی خواہاں ہے جو 25 مئی کو اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔‘

’افسران کا چناؤ سیاسی بنیادوں پر‘

پولیس کے اعلٰی افسر کے مطابق پولیس کا محکمہ اس وقت ایک طرح کی سیاسی کشمکش میں گھِر چکا ہے۔
’پی ٹی آئی والے افسران کی تعیناتی میں یہ بات مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ ن لیگ کے دور میں کہاں تعینات تھے۔ ن لیگ نے بھی ان افسران کا تعین کیا جو پی ٹی آئی دور میں مرکز نگاہ نہیں تھے۔ اس واضح تقسیم سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔‘
سابق آئی جی پنجاب خالد خواجہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ روش اور تاثر کسی صورت درست نہیں ہے۔
’پولیس صرف اور صرف آئین اور قانون کے تحت چلتی ہے۔ پولیس کا سیاسی استعمال ادارے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تو پولیس میں تمام افسران سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ آئین و قانون اور حکومت وقت کی دی ہوئی آئینی اور قانونی ہدایات پر چلتے ہیں۔‘

شیئر: