Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تھرپارکر: معدنیات سے مالا مال ریگزار،غربت و قحط سالی کا شکار

’’ریت کے سمندر‘‘ میں آباد پاکستانی نہایت محنتی اور ایماندار ہیں،، 2300دیہات میں سے بیشتر بجلی جیسی سہولت سے محروم ہیں
* * * رپورٹ:مصطفی حبیب صدیقی۔کراچی* * *
اللہ کریم کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ریگستان یا صحرا ہے۔اس ’’ریت کے سمندر‘‘ میں بیش بہا مال ودولت پنہاں ہے۔جن ممالک نے اس دولت کا صحیح استعمال کیا، وہ مالامال ہوگئے۔ مثال کے طور پر مملکت سعودی عرب ہمارے سامنے ہے، جہاںلق ودق صحرائوں میں ہزاروں میل طویل ،بل کھاتی سڑکیں بناکر زندگی کو معیار ی بنادیاگیا۔یوںریگزاروں میں بھی ہر وہ سہولت پہنچانے کی کوشش کی گئی جو شہروں میں میسر ہے۔ دوسری جانب اگر ہم پاکستان کے اس ریگزارکی بات کریں تو کفِ افسوس ملنی پڑتی ہے کیونکہ وہاں قحط سالی،فاقہ کشی اور تباہی نظر آتی ہے۔اس تباہی کے ذمہ دار یقینا صاحبانِ اختیار اور سرکاری کرتا دھرتا ہیں۔
آئیے آج آپ کو پاکستان کے خوبصورت ریگستان ’’تھرپارکر ‘‘کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں ۔یقینا آپ بھی ہر ذی فہم و ذی حس انسان کی طرح افسوس کا شکار ہوں گے: سندھ کا ضلع تھرپارکر20ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔گزشتہ برسوںمیں اسے عمر کوٹ سے الگ کرکے عمر کوٹ کو الگ ضلع کا درجہ دے دیاگیا ہے۔تھر کی 6تحصیلیں ہیںجن میں ڈپلو ،مٹھی ،نگر پارکر ،چھاچھرو،اسلام کوٹ اور ڈھالی شامل ہیں۔تھرپارکر کی آبادی تقریباً16لاکھ ہے جس میں سے 40 تا50فیصد یعنی 8لاکھ کے قریب آبادی صرف ایک تحصیل چھاچھرومیں مقیم ہے تاہم یہ پورا ضلع خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے اور یہاں کے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوتے ہیں۔اس ضلع میں آباد پاکستانی نہایت محنتی،جفاکش اور ایماندار ہیں۔تھرکول کے نام سے معروف تھر کا کوئلہ اسی ضلع میں پایا جاتا ہے۔تھرکول جانے کیلئے موجودہ حکومت سندھ اور پہلے کی حکومتوں نے عالمی معیار کی سڑک تو یقینا تعمیر کی ہے تاہم تھرپارکر ،بنیادی طور پر ضلع بدین سے ملاہوا ہے جبکہ دوسری طرف یہ عمر کوٹ سے ملتا ہے۔ ہندوستانی ریاست راجستھان بھی تھر سے ملی ہوئی ہے جہاں سیکڑوں کلومیٹر طویل سڑک موجود ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی تھرپار کر میں غذائی قلت موجود ہے۔تھرپارکر میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم بنیادی طور پر زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں سندھی ،کچھی اور کچھ علاقوں میں مار واڑی شامل ہے۔
یہاں بچوں کی شرح پیدائش 3فیصد کے قریب ہے تاہم غذائی قلت کی وجہ سے مائوں کاجسمانی وزن کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کا وزن بھی کم ہوتا ہے جو عام طور پر 800سے1200گرام یعنی 2سے ڈھائی پائونڈہوتا ہے جس کی وجہ سے ان میں قوت مدافعت نہایت کم ہوتی ہے اور وہ بہت جلد بیماریوں کا شکار ہوکر موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ پورے تھرپارکر میں صرف اسلام کوٹ میں اسپتال موجود ہیں۔ یہ علاقہ مٹھی سے120کلومیٹر دور ہے ۔اس کی وجہ سے لوگ اپنے مریض یا بچوں کو لے کرسیکڑوں کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرکے اسپتال پہنچتے ہیں اور ان کا علاج کراتے ہیں۔کئی ایسے مناظر بھی دیکھے گئے ہیں جن میں لوگ اپنے بچوں کو صندوق میں رکھ کراسپتال لے کر آئے ہیں۔ تھرپارکر میں غربت کی وجہ سے غذا کی کمی ہے ۔لوگ دوپہر میں بھی چائے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جبکہ ہری مرچ اور پیاز کو ملاکر چٹنی بناکر روٹی سے کھالیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں پروٹین یعنی لحمیات کی کمی کی شکایت عام ہے۔ اسی کمی کے باعث لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تھر میں زیرزمین پانی موجود ہے تاہم وہ کھارا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اس پانی سے بھی بہت کچھ اُگایا جاسکتا ہے،کئی قسم کی فصلیں کاشت کی جاسکتی ہیں۔سرسوں،کپاس ،مختلف پھلیاں اور زیرہ سمیت مختلف چیزیں اُگائی جاسکتی ہیں۔یہاں کیکر کے درخت لگاکر لکڑی حاصل کی جاسکتی ہے تاہم ذمہ داران کی روایتی عدم توجہی اس علاقے کا مقدر ہے جس کی وجہ سے بہت سے کام نہیں ہوپاتے۔یاد رہے کہ کڑوے پانی سے گوار کی فصل بھی کاشت کی جاسکتی ہے اور یہ وہ فصل ہے جس سے بارودی سرنگیں بنائی جاتی ہیں جبکہ ’’گوار گم‘‘وغیرہ کو برآمد کرکے پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔ تھر میں لائیو اسٹاک کا بڑا ذخیرہ موجودہے ۔ یہاں 70سے75لاکھ مویشی پائے جاتے ہیں جن میں اونٹ، گائے، بکریاں، بھیڑیں اور دنبے شامل ہیں مگر ان کا دودھ بنیادی طور پر مقامی باشندوں کے ہی کام آتا ہے جبکہ کوئی باقاعدہ ڈیری فارم موجودنہیں جس کی وجہ سے اس کثیر لائیو اسٹاک سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ۔ اگر حکومتی اور نجی اداروں کے تحت یہاں ڈیری کی صنعت لگائی جائے تو یقینا اس کا فائدہ جہاں حکومتی خزانے کو ہوگا وہیں مقامی باشندوں کو بھی روزگار میسر آسکے گاجبکہ بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی یہاں اپنے پلانٹس لگانے کی جانب راغب کیاجاسکتا ہے۔
یقینا اس سے ملکی معیشت بھی بہتر ہوگی۔ بھیڑوں سے اون حاصل کرکے برآمد کیاجاسکتا ہے۔کپا س، ایک مہنگی فصل ہے، اسے بھی فروغ دیاجاسکتا ہے۔ پاکستانی تھرپارکرکے مقابلے میں ہندوستانی ریاست راجستھان کافی سرسبزوشاداب ہے کیونکہ وہاںنہروں کے ذریعے پانی پہنچایاگیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کا کسان خوشحال ہے۔ تھر میں تقریباً 2300دیہات ہیں جن میں سے بیشتر بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔تھرمیں زراعت کا بنیادی دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے اور جس سال یہاں بارش نہ ہو، وہ قحط سالی کا سال کہلاتا ہے۔ جب قحط سالی ہوتی ہے تو لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ قریبی اضلاع، عمرکوٹ، سجاول اور بدین کی جانب سفر کرتے ہیں چونکہ یہ سفر سیکڑوں میل پر محیط ہوتا ہے جو نہایت جاں سوز ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لو گوں کے جانور مرجاتے ہیں۔ 2004ء سے2007ء کے دوران اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ،ارباب غلام رحیم کے دور میں تھر میں کافی ترقی ہوئی تھی۔انہوںنے یہاں سڑکوں کا جال بچھایا تھاجبکہ پانی کے بھی کئی منصوبے شروع کئے گئے تھے۔
بعدازاں پیپلزپارٹی کے دور میں بھی پانی کا بڑا پلانٹ لگایاگیا تھا جسے ایشیا کا بڑا پلانٹ قراردیاجاتا ہے۔یہ پلانٹ تھرپارکر کے صدرمقام مٹھی میں لگایاگیا تھا جو شہر سے ڈیڑھ دو کلومیٹر دور ہے۔نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ پانی لے جانے کیلئے برتنوں ،مٹکوں اور مشکوں کا استعمال تو کرتے ہی ہیں ، اکثر لوگ پینے کا پانی ٹریکٹر کی ٹیوب میں بھر کر لے جانے پر بھی مجبور ہیں۔ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے تھر کے باشندے بہت ہی زبوںحالی کا شکارہیں اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں جیسے غیر مسلم اس علاقے میں اپنے پنجے گاڑ رہے ہیں ۔تھر میں مختلف فلاحی تنظیمیں اپنے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں الخدمت فائونڈیشن،فلاحِ انسانیت فائونڈیشن اور ریڈ کراس قابل ذکر ہیں۔
قادیانیوںنے تھر میں بڑا اسپتال بنایا ہے جس کی آڑ میں وہ اپنے باطل نظریات کا پرچارکرکے معصوم اذہان کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔حکومت پاکستان کواس جانب بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تھر میں چند علاقوں کے سواعام طور پر شہریوں میں دینی شعور تقریباً ناپید ہے۔لوگوں میں نمازکی پابندی تو دور کی بات، اگر انہیںکلمہ سنانے کا کہاجائے تو وہ بھی بہت مشکل سے سناپاتے ہیں۔غربت کی انتہاء کی وجہ سے یہاں زکوٰۃ کا تصور بھی ناپید ہے کیونکہ تقریباً ہر شخص ہی زکوٰۃ کا مستحق ہے۔ گرمی سے بچنے کیلئے تھر کے افراد تکونی شکل کے گھاس پھوس کے مکان بناتے ہیں جنہیں ’’چونرہ‘‘ کہاجاتا ہے ۔اس طرح کے مکانات افریقہ میں ہوتے ہیں۔یہ عموماً ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ ’’چونرہ‘‘ گول اور گہراہوتا ہے جس کے اوپر مخروطی گنبد بناہوتا ہے۔ غذائی قلت کے باعث تھر میںہر سال سیکڑوں بچے مرجاتے ہیں ان اموات کی نصف تعداد بھی رپورٹ نہیں ہوپاتی۔صرف ان کی رپورٹ ملتی ہے جو سول یا مٹھی اسپتال پہنچ جاتے ہیں جبکہ وہ بچے جو گھروںمیں موت کا شکار ہوجاتے ہیں، ابلاغی ذرائع کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہو پاتی ۔ تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی اور متصل علاقہ عمر کوٹ میں ہندو بڑی تعداد میں آبادہیں تاہم بدقسمتی سے اتنی بڑی آبادی کو بھی اسلام کے پیغام سے روشناس کرانے کیلئے حکومتی سطح پر کوئی انتظام نہیں جس کی اشد ضرورت ہے۔1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق تھرپارکر میں64فیصد مسلمان اور34فیصد ہندوآباد ہیں۔ تھرپارکر میں رانی کھیت نام کی بیماری کی وجہ سے سالانہ سیکڑو ں نایاب مور مر جاتے ہیں ۔
محکمہ جنگلی حیات کا دعویٰ تو ہر سال یہی ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تاہم میڈیاپر موجود خبروں کے مطابق تھر میں نایاب موروں کا بڑی تعداد میں مرنا ایک حقیقت ہے۔ تھرپارکر کی یہ بدقسمتی بھی کیا کم ہے کہ ہر سال غیر ممالک سے شکاری یہاں آتے ہیں اور پابندی کے باوجود درپردہ اور کہیں کہیں ظاہری طور پر حکومتی اجازت کے ساتھ نایاب پرندوں کاشکار کرتے ہیں۔اس صورتحا ل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ وہ نایاب پرندے ہوتے ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کر رکھا ہے کہ ان کی نسل معدوم ہو رہی ہے چنانچہ انہیں ہرطرح کا تحفظ فراہم کیاجانا چاہئے اور ان کی افزائش پر بھرپور توجہ دی جانی چاہئے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود ان جانوروں کے شکار کا سلسلہ جاری ہے۔افسوس درافسوس یہ کہ ان پرندوں کا شکار کرنے والے یہاں کے مقامی باشندوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ ’’چار،آٹھ آنے‘‘ دے کر ٹرخادیتے ہیں جو یقینا ذمہ داران کے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں۔

شیئر: