Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 29 نومبر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رواں ماہ کی 29 تاریخ کو پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ان کے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے جاری ہیں۔
آرمی چیف کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا بھی رواں ماہ ہی ریٹائر ہو رہے ہیں۔  

اردو نیوز کا فیس بک پیج لائک کریں

 

وفاقی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل فوج کے نئے سربراہ کے تقرر کا اعلان کرنا ہے اور اس حوالے سے چھ سینیئر ترین لیفٹینٹ جنرلز اس فہرست میں شامل ہیں۔

پاکستان میں اس اہم تقرری کے طریقہ کار اور ماضی کی مثالوں کے حوالے سے اردو نیوز نے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔
آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کی صوابدید؟
پاکستان میں اہم ترین سمجھے جانے والے عہدے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 243 میں بہت مختصر سا طریقہ کار درج ہے۔ آرٹیکل 243 کی شق تین کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت بری، بحری اور فضائی تینوں سروسز کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تعینات کرے گا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین جو کہ خود بھی بطور سیکریٹری دفاع سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے عمل کا حصہ رہے ہیں کا کہنا تھا کہ اس تقرری میں سارا اختیار وزیراعظم کا ہوتا ہے اور جانے والے آرمی چیف کا اس میں زیادہ کردار نہیں ہوتا، تاہم ماضی میں وزرائے اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف سے ایک غیر رسمی مشاورت کرتے رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کا کہنا تھا کہ ’آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق سبکدوش ہونے والے آرمی چیف وزیراعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیں گے جن میں سے وہ آرمی چیف کے امیدوار کا انتخاب کر کے صدر پاکستان کو منظوری کے لیے بھیجیں گے۔‘

وزیراعظم سینیئر ترین جرنیلوں کی فہرست میں سے آرمی چیف کے امیدوار کا انتخاب کر کے صدر پاکستان کو منظوری کے لیے بھیجیں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

ان کے مطابق ’آئین میں اس اہم ترین عہدے یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی تفصیلی عمل نہیں دیا گیا جبکہ دوسری طرف درجہ چہارم کے ملازم کی سرکاری نوکری پر تعیناتی کے لیے ایک لمبا چوڑا عمل ہوتا ہے۔‘
’آئین کے آرٹیکل 243 میں سروسز چیفس کی تعیناتی کے حوالے سے آدھا صفحہ بھی نہیں بلکہ صرف چند سطریں درج ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ آئین اور قانون میں کوئی تفصیلی طریقہ کار یا سمری بھیجنے یا واپسی کی واضح ٹائم لائن موجود نہیں اس لیے مروجہ طریقہ کار سے ہی رہنمائی لی جاتی ہے۔‘
تقرری کی سمری بھیجنے کا روایتی طریق کار
مروجہ طریقہ کار کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن یا دو ہفتے قبل وزیراعظم آفس خط لکھ کر وزارت دفاع سے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری منگواتا ہے۔
اس کے بعد وزارت دفاع آرمی چیف سے ناموں کی فہرست مانگتی ہے۔ حکومتی رولز آف بزنس کے مطابق کسی بھی سرکاری تعیناتی کے لیے اگر ایک عہدہ خالی ہو تو تین نام بھیجے جاتے ہیں اور اگر دو تعیناتیاں کرنا ہوں تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں۔

وزیراعظم آفس خط لکھ کر وزارت دفاع سے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری منگواتا ہے (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

چونکہ اس وقت آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے دو عہدے خالی ہونے ہیں تو توقع ہے کہ آرمی چیف پانچ نام وزارت دفاع کے ذریعے وزیراعظم کو بھیجیں گے۔
 ان میں سے دو عہدوں کے لیے وزیراعظم دو لیفٹیننٹ جنرلز کو پروموٹ کرکے جنرل بنا دیں گے اور انہیں آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کرنے کی سفارش صدر کو بھیجیں گے۔
وزیراعظم کو بھیجے گئے ناموں کی فہرست کے ساتھ ہر افسر کی سروس فائل بھی ہوتی ہے جس میں اس کی ماضی کی خدمات کا ذکر ہوتا ہے۔
صدر کی منظوری کے بعد آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
اس وقت آرمی چیف کے عہدے کے لیے سینیئر لیفٹیننٹ جنرلز میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل عامر رضا کے نام شامل ہیں۔
سمری کی رازداری کیسے برقرار رکھی جاتی ہے؟
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے خط و کتابت دستی طور پر کی جاتی ہے اور افسران یہ سمری لے کر وزارت دفاع سے وزیراعظم ہاؤس جاتے ہیں۔‘

سرکاری تعیناتی کے لیے ایک عہدہ خالی ہو تو تین اور اگر دو تعیناتیاں کرنا ہوں تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)

’وزیراعظم ہاؤس سے بھی افسران خود اسے لے کر ایوان صدر جاتے ہیں اور واپس لاتے ہیں۔ اس سارے عمل کا مقصد اس اہم تعیناتی کی رازداری کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔‘
ناموں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کا کہنا ہے کہ ’ایک افسر کی سینیارٹی کا تعین اس کے کمیشن حاصل کرنے کی تاریخ سے کیا جاتا ہے اور ساری زندگی کے لیے وہی تاریخ اس کی سینیارٹی متعین کر دیتی ہے۔‘
’آرمی چیف کو پانچ اہل افراد کی لسٹ سینیارٹی کی ترتیب سے بھیجنا ہوتی ہے تاہم روایتی طور پر آرمی چیف کے عہدے کے لیے تعینات ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فائٹنگ کور سے ہو اور اس نے ایک سال تک کسی کور کی کمان بھی کی ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کی تقرری کے لیے اہلیت یہ ہے کہ متعلقہ افسر اس وقت آرمی کا یونیفارمڈ آفیسر ہو اور اس نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لے رکھی ہو۔‘
’سنہ 2013 میں جنرل راحیل شریف کی تعیناتی سے قبل اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف سے پانچ ناموں کی فہرست مانگی تھی جو مہیا کی گئی تھی۔‘

’موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کا اعلان صرف دو دن پہلے کیا گیا تھا‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

 لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے مزید پانچ نام بھی مانگے تھے تاہم وزیراعظم نے پہلی سمری سے تیسرے نمبر پر موجود جنرل راحیل شریف کا انتخاب کر لیا تھا۔‘
’نئے آرمی چیف کا اعلان بعض اوقات مہینوں پہلے کر دیا جاتا ہے جیسا کہ جنرل آصف نواز کے نام کا اعلان تین ماہ قبل کر دیا گیا تھا۔‘
سابق سیکریٹری دفاع کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات صرف چند دن پہلے ہی نام کا اعلان کیا جاتا ہے جیسا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کا اعلان صرف دو دن پہلے کیا گیا تھا۔‘
آرمی چیف کی تعیناتی کے قواعد مبہم ہیں؟
آرمی سے متعلق قوانین کے ماہر کرنل انعام الرحیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے آئین میں طریق کار درج ہے تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات آرمی ایکٹ میں بھی موجود نہیں ہیں۔‘
 انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف بننے کے لیے ایسی کوئی قدغن آرمی ایکٹ میں موجود نہیں کہ متعلقہ جنرل ایکسٹینشن پر نہ ہو۔‘

جنرل پرویز مشرف کے بقول ’انہیں تعیناتی سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے بتا دیا تھا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے قواعد مبہم ہیں۔‘ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’سابق آرمی چیف اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں اکتوبر 1998 اپنی تعیناتی سے قبل اچانک وزیراعظم کے دفتر سے فون آیا کہ آکر ملیں۔‘

اردو نیوز کا یوٹیوب چینک سبسکرائب کریں

’اس پر وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بتائے بغیر فوراً وہاں پہنچے تو انہیں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے۔‘
انعام الرحیم کے مطابق ’بعد میں باہر آکر انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو بتایا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کر دیا گیا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اس عمل میں کوئی سمری نہیں بھیجی گئی تھی۔‘  

شیئر: