Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر 2022 کو مکمل ہو رہی ہے. (فوٹو: اے ایف پی)
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آرمی ایکٹ کے شقوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے مقامی میڈیا پر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’آرمی ایکٹ سے متعلق ترمیم کو میڈیا میں زیربحث لانا غیر ضروری ہے، حکومت مذکورہ ایکٹ میں کسی بڑی تبدیلی پر غور نہیں کر رہی۔‘
خواجہ آصف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں یہ بھی کہا کہ ’سپریم کورٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ کے متعلقہ شقوں پر نظر ثانی کا حکم دے رکھا ہے جس کی تعمیل مناسب وقت پر کی جائے گی۔‘
اس سے قبل پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق خبر شائع کی تھی جس کے مطابق ’حکومت آرمی ایکٹ میں میں اہم ترمیم کرنے پر غور کر رہی ہے جس سے کسی بھی امیدوار کی ایک سادہ نوٹی فکیشن کے ذریعے تعیناتی اور تقرر کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہوجائے گا۔‘
رپورٹ کے مطابق ’پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 176 کی ذیلی شق (2 اے) کی شق اے میں ’ری اپائنٹمنٹ‘ کے بعد لفظ ’ری ٹینشن‘ ڈالا جائے گا، اسی طرح لفظ ’ریلیز‘ کے بعد ’ریزائن‘ بھی شامل کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک وزیر دفاع خواجہ آصف کا ردعمل سامنے آیا ہے اور انہوں نے کسی بڑی ترمیم کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آرمی ایکٹ کے شقوں پر نظرثانی سپریم کورٹ کے احکمات کی روشنی مناسب وقت میں کی جائے گی۔‘
دوسری جانب اپوزیشن جماعت تحریک انصاف اس معاملے پر کھل کر سامنے نہیں آئی۔ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے زمان پارک لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کی تقرری پر ہماری پالیسی دیکھو اور انتظار کرو کی ہے۔‘
تاہم جمعرات کو لانگ مارچ کے شرکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اتنا کہا کہ حکومت آرمی ایکٹ بدل رہی ہے اور ایسا آرمی چیف لانا چاہتی ہے جو ان کے مفادات کو تحفظ کرے۔

عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت آرمی ایکٹ بدل رہی ہے اور ایسا آرمی چیف لانا چاہتی ہے جو ان کے مفادات کو تحفظ کرے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک کوئی ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا نہ ہی کوئی مجوزہ ترمیمی بل کا ڈرافٹ سامنے آیا ہے۔ جب بل سامنے آئے گا تو ہی تحریک انصاف اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بنائے گی۔‘

آرمی ایکٹ میں ترمیم اس وقت ضرورت کیوں پیش آئی؟ 

پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر 2022 کو مکمل ہو رہی ہے اور وفاقی حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کرنا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر آرمی ایکٹ کے شقوں میں نظر ثانی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو کیوں اس کی ضرورت پیش آئی؟ 
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ کے حکم میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر عملدرآمد نہ ہوچکا ہو۔ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے بعد پارلیمنٹ سے ترمیم کر لی گئی تھی، اب آرمی ایکٹ میں جو ’ریٹنشنش‘ کی بات کی جارہی ہے یہ آرمی چیف سے ہٹ کر ہے اور کسی بھی آفیسر کے لیے ہوسکتی ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم خالد لودھی کے مطابق ’آرمی چیف کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی آفیسر کو ایک سال کی توسیع دو بار دے سکتے ہیں۔ آرمی چیف کے پاس یہ اختیار پہلے سے موجود ہے اب یہ اختیار وزیراعظم کے پاس لانا چاہتے ہیں جس سے ادارے میں سیاسی مداخلت مزید بڑھے گی۔‘
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’وفاقی حکومت یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی کرنے جارہی ہے اور حکومت کو اس وقت یہ ترمیم فائدہ مند بھی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تعیناتی سے متعلق قانون کو واضح بنادیا جائے تاکہ اس معاملے کو مزید متنازع ہونے سے روکا جاسکے۔‘
طلعت مسعود کے مطابق ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں جن شقوں پر نظر ثانی کی ہدایت کی گئی تھی اس پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا اور کچھ ایسے سیکشنز اس میں شامل ہونے تھے جو کہ اس وقت نہیں ہوئے اور اب حکومت چاہ رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد کروایا جایے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ کے متعلقہ شقوں پر نظر ثانی کا حکم دے رکھا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

نعیم خالد لودھی کے مطابق ’جو مجوزہ ترمیم سامنے آرہی ہے وہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے اور اس سے ادارے کو نقصان ہوگا۔ یہ کہا تو جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کو بااختیار بنایا جارہا ہے اور سول سپریمیسی کی طرف قدم ہے لیکن اس سے ادارے کے نظام کو نقصان ہوگا اور اس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترمیم کی جارہی ہے۔‘
سینئیر قانون دان کامران مرتضی کے خیال میں ’سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے بعد قانون سازی کر دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ضرورت کے تحت ہے لیکن وہ ایک غیر مناسب فیصلہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘پارلیمان سپریم کورٹ کے ہدایات کے مطابق قانون سازی نہیں کرسکتی اور وزیردفاع خواجہ آصف کا جو بیان ہے وہ بھی پارلیمان کے تقدس کے خلاف ہے۔‘

شیئر: