Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانوں کے درمیان مساوات، اسلام کی اولین تعلیم

مؤمن مرد و عورتوں کو جس طرح عزت وآبرو سے جینے کا حق حاصل ہے ، اسی طرح غیر مسلم اور نچلے طبقے کے افراد کو بھی حق ہے
* * * مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن * * *
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاص دست شفقت سے بنایا ، انہیں عقل و شعور اور فہم و ادراک کا مادہ عطا کیا ، علم و فراست اورمختلف ممتاز خوبیاں دیں ، فرشتوں سے سجدۂ تعظیمی کراکے اس بات سے آگاہ کیا کہ انسان کو بحیثیت انسان تمام خلائق پر فوقیت حاصل ہے ، اس کی عظمت و برتری میں کوئی بھی مخلوق ہمسری نہیں کرسکتی ۔ انسا نیت کے اعتبار سے تمام اقوام عالم اس عظمت و شرافت میں برابر کے شریک ہیں اس لئے تمام انبیائے کرام نے اپنے پیرو کاروں کو ہدایت دی کہ وہ لوگ جو توحید و رسالت کے قائل نہیں اگرچہ اخروی اعتبار سے ناکام اور عظیم خسارہ کے مستحق ہیں ، تاہم وہ بھی آدم ؑکی اولاد اور انسانی برادری میں شریک ہیں۔رحمت و شفقت ، ہمدردی ومحبت اور انسان کی بہترین اخلاقی قدروں سے انہیں دور رکھ کراللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کی جاسکتی۔انسانیت کا یہ تصور تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہے ، بالخصوص مذہب اسلام نے اس تصور کو مستحکم انداز میں پیش کیا ہے ۔
دنیا داروں کے یہاں کالے گورے کا فرق ہوسکتا ہے اور ہے لیکن اسلام کی نظر میں تمام انسان انسانیت کے اعتبار سے یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔رنگ و نسل ، قوم و وطن کے اعتبار ے تفریق جائز نہیں ، کمزوروں اور دبے کچلے لوگوں کا تعاونِ انسانی حق ہے اس لئے اسلام نے مذہب و مسلک اور رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر انسانی بنیادوں پر ہر مظلوم کے تعاون کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہنے ارشادفرمایا : ’’اپنے بھا ئی کی مددکرو خوا ہ وہ ظا لم ہو یا مظلوم۔‘‘ (بخاری)۔
حضرات محدثین کی صراحت کے مطابق مظلوم میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں۔ آپنے انہیں اولاد آدم کی حیثیت سے بھائی قرار دے کر رحم کے جذبات کو ابھارا ہے کہ انسانی اخوت کے رشتہ سے ہر مظلوم کا تعاون کیا جائے اور اس کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے۔ اسی انسانی اخوت کے سبب پڑوس میں بسنے والے یا کمپنی میں ساتھ کا م کرنے والے غیر مسلم کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی گئی اور کسی مسلک و مذہب کی تفریق کے بغیر تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے برتنے کا حکم دیا گیا بلکہ بسوں اور ٹرینوں پر سفر کرتے ہوے کچھ دیر کے لئے جو ساتھی بن جاتے ہیں ، قرآن نے ان کے ساتھ بھی رواداری اورشیریںزبانی کی تعلیم دی ہے خواہ وہ کسی بھی ملک ، علاقہ اور نسل سے تعلق رکھتے ہوں، اسلام کی نظر میں بس اتنا کافی ہے کہ وہ ایک انسان ہے۔ انسانیت کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے اور سماج کے تمام افراد اس کے شکار ہوتے ہیں اور سبھی مدد کے محتاج ہوتے ہیں ایسے وقت ساری مسلم ریلیف تنظیمیں صرف انسانی بنیادوں پر راحت رسانی کا کام کرتی ہیں اور کسی مذہبی تعصب کے بغیر جہاں تک ہوسکتا ہے ، تمام مصیبت زدہ افراد کی خدمت کی جاتی ہے۔غیر مسلم جماعتیں خواہ تعصب کی نظر سے دیکھیں یا تعاون کریں ، یہ ان کا اخلاق ہوسکتا ہے مگر اسلام نے اپنی تعلیمات کا مدار فراخدلی ، وسعت ظرفی اور صلہ رحمی پر رکھا ہے اور اسی کا اثر ہے کہ اسلام کے خلاف ہزار سازشوں کے باوجود اس کی لَو آج تک مدہم نہیں ہوئی بلکہ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد الحمد للہ ر وز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔
عفت وعصمت کی حفاظت انسانی حق ہے اس لئے مسلمانوں کے لئے غیر مسلم اجنبی خواتین کی طرف غلط نگاہ ڈالنا اسی طرح حرام قرار دیا گیا ہے ، جس طرح مسلم غیر محرم عورتوں کی طرف ، گویا اسلامی نقطۂ نظر سے مؤمن مرد و عورتوں کو جس طرح عزت وآبرو سے جینے کا حق حاصل ہے ، اسی طرح غیر مسلم اور نچلے طبقے کے افراد کو بھی عزت و آبرو اور باوقار زندی بسر کرنے کا حق ہے اس لئے کہ اس کا تعلق انسانی اور بنیادی ضرورتوں سے ہے اور انسانیت میں سارے انسان برابر شریک ہیں ۔ روایت میں ہے کہ حاتم طائی کی لڑکی سفانہ جب قید کرکے دربار رسالت میں لائی گئی تو اس کا سر برہنہ تھا۔ آپ نے اپنی مبارک چادر ایک صحابی کو دیتے ہوے ارشاد فرمایا : اس بچی کا سرڈھانپ دو ، صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ تو دشمن کی بیٹی ہے ، آپکی وہ چادر مبارک جس پر عفت کی مہر لگی ہو کیونکر اس کے سرپر رکھی جاسکتی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ بیٹی بہر حال بیٹی ہوتی ہے ، دوست کی ہو یا دشمن کی ۔‘‘ قیدیوں کے ساتھ آج جو برا سلوک کیا جاتا ہے ، وہ تقریباً سب پر ظاہر ہے ۔الٹا لٹکانا ، برہنہ کرنا ، بجلی کی شارٹ لگانا ، ننگے بدن پر حد سے زیادہ مارنا ، مختلف اعتبار سے ٹارچر کرنا وغیرہ اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں اور یہ اُن قیدیوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے جن کا مجرم ہونا واضح بھی نہیں ہوتا ، محض چند ضعیف شواہد اور گمان کی بنیاد پر روح فرسا ایسی سزائیں جن سے انسانیت پامال کردی جاتی ہے ، اسلام نے ان سزاؤوں کو جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا ، چہ جائے کہ کسی انسان کو یہ سزادی جائے ۔
حاتم طائی کی بیٹی کا محض سر کھلا ہوا تھا ، آپ نے فوراًانسانی حقوق کے تحفظ کا سامان فراہم کیا اور رہتی دنیا تک انسانیت اور اخلاق کی بات کرنے والوں کو پیغام دیا کہ اسلام نے انسانی حقوق کی حفاظت کا جو نقشہ پیش کیا ہے ، در اصل اسی میں انسانیت کی حفاظت اور قدر ہے ، اس سے جداہوکر انسانیت کا فروغ تو کیا اس کی بقا بھی ممکن نہیں ۔ اسی طرح بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا انسان کے بنیادی حقوق میں سے ہے۔ شریعت اسلامی نے اس باب میں بھی مکمل وسعت ِظرفی کا ثبوت دیا اور ہدایت دی کہ دوسرے ادیان کے لوگوں کو بھی مسلمان صدقہ دیا کریں ، انہیں کھلائیں ، پلائیں اوران کی ضروریات پوری کریںکیونکہ وہ بھی اللہ کے بندے اور انسان ہیں ، ان کے کھلانے پلانے میں بھی تقریباً وہی اجر وثواب ہے جو ایک مسلمان کو کھلانے پلانے میں ہے ۔ حضرت عمر فاروق ؓ ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک نصرانی فقیر کو دیکھا کہ بھیگ مانگ رہا ہے۔
فاروق اعظم ؓ اس کے پاس گئے اور حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ تیری جوانی اور قوت کے زمانہ میں ہم نے تجھ سے ٹیکس وصول کیا اور جب تو بوڑھا ہوگیا تو اب ہم تیری امداد نہ کریں ، اسی وقت حکم دیا کہ بیت المال سے اسکو تا حیات گزارہ دے دیا جائے (جواہر الفقہ)۔ وہ غیر مسلم جو اسلامی مملکت کے باشندے ہیں ، ان کے بارے میں بھی تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ، ان کی جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے،کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان اپنا ملک سمجھ کر ان پر ظلم کرنے لگیں ، ان کو ستائیں اور پریشان کریں ، رسول اکرمنے ارشاد فرمایا : ’’سنو ! جس نے کسی معاہد پر ظلم کیا ، اس کی عزت کو داغ دار کیا ، اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام کا مکلف بنایا یا اس کی خوش دلی کے بغیر کوئی سامان لے لیا تو میں قیامت کے دن اس کا خصم(دشمن) ہوںگا اور معاہد کی جانب سے لڑوں گا۔ ‘‘ (کنزالعمال )۔ ان تعلیمات کا تعلق بھی انسانی اقدار کے تحفظ اور حسن اخلاق سے ہے۔ دوسرے مذاہب میں انسا نیت کی یہ قدر نہیں پا ئی جاتی۔
دارالحرب اگر کو ئی مسلمان چلا جا ئے تو اسے پریشان کیا جاتاہے ‘ مشکوک نظر سے اسے دیکھا جا تا ہے ‘ اس کی جا ن ‘مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں رہتی لیکن اسلام نے اسلامی ملک میں رہنے والے ہر شخص کو امن کا پیغام دیا ہے ‘ کسی مسلمان کو اس کی طرف غلط نگا ہ اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہیں ہو تی اس لئے کہ عزت و آبرو کا تحفظ ہر انسا ن کا بنیا دی حق ہے جسے چھیننا اسلام کی نظر میں نا قابل معا فی جر م ہے ۔ انسا نیت کی یہ ذمہ دا ری اُس وقت مزید بڑھ جا تی ہے جبکہ ہما را تعلق کسی مسلما ن سے ہو اس لئے کہ ان سے2 رشتے ہیں: ایک انسا نیت اور دوسرے دینی ہم آ ہنگی۔یہی وجہ ہے کہ نصو صِ شر عیہ میں مسلما نو ں کے آ پسی حقو ق ادا کر نے پر بہت زیا دہ زور دیا گیا ہے اور ہر کلمہ گو شخص کو دوسرے اہل ایمان کے سا تھ اخوت ‘ ہمدردی ‘ بھا ئی چا رگی اور محبت سے پیش آ نے کی تلقین کی گئی ے ۔ چنا نچہ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے ہمیں 7 باتوں کا حکم دیا :* مریض کی عیادت کرنا* جنازوں کے پیچھے چلنا* چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا * کمزور آدمی کی مدد کرنا* مظلوم کی امداد کرنا * سلام کو رواج دینا ، *قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے میں تعاون کرنا ( بخاری)۔ رسول اللہنے ان7 باتوں کے ذریعہ دوسرے مسلمانوں کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔
توحید و رسالت کا اقرار کرنے والا خواہ کسی بھی ملک اور زبان سے تعلق رکھتا ہو وہ قابل احترام ہے ۔ اس کی جان و مال ، عزت و آبرو پر حملہ کرنا اور کسی طرح کی ایذا رسانی درست نہیں۔ ایک مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کیلئے اپنے قلب و ذہن کو وسیع رکھے ۔ اگر کسی کو خوشی کا کوئی موقع ہاتھ آئے تو حسد کے بجائے اسے اپنی خوشی تصور کرے اور اس میں ہاتھ بٹائے اور تکلیف، حادثات ، مصائب کے وقت بھی مکمل تعاون کرے اور جہاں تک ممکن ہو اس کی مصیبتوں کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ انسا نیت کی اس قدر تا کید اور اہمیت کے با وجود خو د مسلمان ایسا کام کر جا تے ہیں جس سے انسا نیت کو بھی شرم آنے لگتی ہے ۔ والدین کی نا فرما نی ‘کمزو روں اور محتا جو ں پر ظلم و زیا دتی ‘زنا کا ری ‘شراب نو شی‘ بیکسو ں سے ایک ایک روپیہ کی سود کی و صولی‘ رشوت کی طلب‘ جہیز کے لئے لڑکیو ں کی ہرا سا نی‘باہمی جھگڑ وں میں شرمنا ک گا لی گلوج‘ مسلکی بنیا دو ں پر مساجد و مدارس‘ جلسہ و جلوس کی تقسیم و غیرہ سیکڑ وں ایسے مسائل ہیں جو ہما رے سماج میں رگو ں کے خو ن کی طر ح پیو ست ہیں ۔انسانیت سوزہم شب و رو ز یہ کام کر تے ہیں مگر احساس تک نہیں ہو تا کہ جس مذ ہب کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں اُس نے ایک انسان کو سب سے پہلے انسا نیت پیدا کرنے کی تلقین کی ہے ۔ایک مسلمان جب تک کامل انسان نہیں بنتا وہ شریعت کا مطلوب مسلمان بھی نہیں بن سکتا۔ ان جرائم اور انسا نیت کے معیا ر سے گری بعض حر کتو ں کے سبب ایک سچا مسلمان تو کیا ایک شریف انسان بھی ہم کہلانے کے مستحق نہیں۔غور کیجئے کہ کیا ایسا ایمان ہمیں رضائے الہٰی اور حصول جنت کی راہ تک پہنچا سکے گا۔چکبست ایک غیرمسلم شا عر ہیں لیکن انہو ں نے اسلام کی حقیقی تر جما نی کی ہے: درد ِدل پا سِ وفا جذ بۂ ایما ں ہو نا آ دمیت ہے یہی او ر یہی ہے ایمان ہو نا

شیئر: