غیرملکی کرنسی کی خریدوفروخت پر سٹیٹ بینک نے کونسی پابندیاں لگائیں؟
غیرملکی کرنسی کی خریدوفروخت پر سٹیٹ بینک نے کونسی پابندیاں لگائیں؟
منگل 27 دسمبر 2022 6:01
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے بعد ڈالر کا ریٹ 240 کی سطح سے کم ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی
سال 2022 پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سال رہا اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 49 روپے کا اضافہ ہوا۔
تاہم سال کے آخری چند ماہ میں ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے اور قلت میں کمی کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے جس سے کم از کم انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں کسی قدر استحکام دیکھنے میں آیا۔
سال کے آغاز میں انٹربینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت تقریباً 176 روپے تھی جو سال کے آخر میں 225 روپے تک پہنچ گئی اور سال بھر میں امریکی کرنسی کی قیمت میں تقریباً 28 فیصد کا اضافہ ہوا۔
ستمبر کے آخر میں موجودہ حکومت نے مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا تو ڈالر کا ریٹ 240 کی تاریخی سطح سے آہستہ آہستہ کم ہوتے 222 ہوا جو اب 225 تک رُکا ہوا ہے۔
اس حوالے سے اپوزیشن اور کچھ معاشی ماہرین ڈالر ریٹ کو اسحاق ڈار کی سخت پالیسی کے ذریعے روکنے کو غلط پالیسی قرار دیتے ہیں جبکہ حکومت اس پالیسی کا دفاع کرتی ہے۔
اس دوران ڈالر کے ریٹ کو کم رکھنے اور اس کی قلت کے خاتمے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
کرنسیکیخرید و فرختپرپابندیاں
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس سال کے آخری چند ماہ میں اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے پر پابندیاں مزید سخت کیں۔
سٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے والوں کے لیے نئی ہدایات جاری کی گئیں۔
ان کے تحت دو ہزار ڈالر کی مالیت سے زائد کوئی بھی دیگر غیرملکی کرنسی خریدنے کے لیے شناختی کارڈ کے علاوہ بینک سٹیٹمنٹ، ویزا، ٹکٹ یا دیگر دستاویزات فراہم کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد عام آدمی کے لیے بغیر وجہ ڈالر خریدنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
اردو نیوز کی جانب سے سروے کرنے پر معلوم ہوا کہ زیادہ تر ڈیلر ناواقف گاہگوں کو بغیر دستاویزات ڈالر نہیں دے رہے اور نئی ہدایات پر سختی سے عمل ہو رہا ہے مگر اگر واقف کاروں کے ذریعے رابطہ کیا جائے تو کچھ ڈیلر بغیر دستاویزات کے مہنگے داموں ڈالر فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے اردو نیوز کو بتایا کہ سٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق اب دو ہزار یا اس سے زائد ڈالر یا اس کے برابر مالیت کے ریال یا کوئی اور کرنسی خریدنے کے لیے لازم ہے کہ خریدار بینک چیک کی شکل میں کرنسی ڈیلر کو روپے میں ادائیگی کرے جس کے بدلے میں اسے ڈالر یا ریال دیے جائیں گے۔
گویا کیش کی شکل میں ادائیگی کر کے صرف دو ہزار سے کم ڈالر کے برابر فارن کرنسی خریدی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اتنی ہی رقم کی فارن کرنسی خریدنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ کسٹمر اس کی وجہ بتائے۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے اس امر کو یقینی بنا رہا ہے کہ ڈالر یا غیرملکی کرنسی صرف ان افراد کو دی جائے جن کو اس کی حقیقی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کنٹرولز لگانے کا مقصد یہ ہے کہ ڈالر ذخیرہ کرنے کی روش کو کم کیا جائے۔ یہ ہدایات ای پی ڈی کی طرف سے جاری کی جاتی ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات کے مطابق بھی پہلے ہی تمام مالی اداروں کو اپنے کسٹمرز کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے کی ہدایات ہیں۔‘
اس کے علاوہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 10 ہزار ڈالر اور ایک سال میں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ڈالر کی خریداری کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے۔
دوسری طرف فارن کرنسی کی غیر قانونی خرید و فرخت روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے بھی کریک ڈاون شروع کر دیا گیا ہے۔
درآمدات پر پابندی
ملک میں ڈالر اور غیر ملکی کرنسی کی قلت کے خاتمے کے لیے حکومت نے مئی میں مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جن میں لگژری آئٹم، کھانے پینے کی اشیا، بڑی گاڑیاں اور موبائل فون کے علاوہ بھی چند دوسری چیزیں شامل ہیں۔ تاہم اگست میں وفاقی حکومت نے لگژری اشیا سمیت تمام چیزوں کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس موقع پر اعلان کیا تھا کہ بین الاقوامی تقاضے پورے کرنے کے لیے امپورٹ سے پابندی ہٹانا ضروری ہے اور آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ ہم امپورٹ پر جلد پابندی ہٹا لیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرط پر لگژری آئٹم پر عائد پابندی ہٹا رہے ہیں لیکن لگژری امپورٹڈ اشیاء پر جتنی ڈیوٹیز ہیں ان پر تین گنا آر ڈیز لگائیں گے۔
تاہم اس کے بعد بھی متعدد کمپنیوں اور سیکٹرز کی جانب سے شکایت کی گئی کہ خام مال اور دیگر اشیا کی درآمد کے لیے کمرشل بینکوں کی جانب سے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سی) جاری نہیں کیے جا رہے۔
سمگلنگکیروکتھام
دوسری طرف حکومت کی پابندیوں کے باعث ڈالر کی بیرون ملک سمگلنگ میں اضافہ ہو گیا۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں سمگلنگ کے تقریباً چار گنا زیادہ کیسز کا سراغ تو کسٹمز اہلکاروں نے مختلف ایئرپورٹس اور بارڈرز پر لگایا ہے، جبکہ سمگلنگ کی کامیاب وارداتوں کا تخمینہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
اردو نیوز کے پاس موجود ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس اور زمینی سرحدوں پر اس سال کے 11 ماہ میں ملک سے غیرملکی زرمبادلہ سمگل کرنے کے 94 واقعات رپورٹ ہوئے۔
اسی دوران تقریباً 45 لاکھ ڈالر کے برابر غیر ملکی کرنسی غیر قانونی طور پر بھی لے جانے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پکڑی جانے والی یہ سب سے زیادہ رقم ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسی ماہ کہا تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ اگر سمگلنگ روکنے کے لیے بارڈر سِیل کرنا پڑے تو وہ بھی کریں۔ اس حوالے سے پاکستان کسٹمز، ایف آئی اے اور رینجرز کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سمگلنگ روکنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔