Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مقام صحابہ کرام ، قرآن کریم کی روشنی میں

صحابہ کرامؓ کی مثالی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے، اِن پاکیزہ نفوس کو بھی ایسے حالات کا سامنا تھا جن سے آج ہم گزر رہے ہیں
* * * * مولانا شفیق احمد اعظمی۔ ابو ظبی * * * *
علمائے متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت ِ صحابہ میں ان کا شمار ہوگا۔ اس طرح کم وبیش ایک لاکھ 24 ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا پاکیزہ گروہ اس زمرہ میں شما رکیا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجوم ِہدایت ہیں کیونکہ رسول اللہ کا ارشاد ہے: اَصْحَابی کالنُّجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم(ترمذی)۔ گروہ ِصحابہ کا وجود، رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب کے عالمگیر پیغام ِرسالت کو خطۂ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وما ارسلناک الا کافۃ للناس (سبا28) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا۔ اگر رسول اللہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائیگی۔ نہ رسول اللہ کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہ نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی معرفت پہنچا ہے۔ خود معلم انسانیت محمد عربینے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام ؓنے اوّل اوّل، زبان رسالت سے آیاتُ اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا: بَلِّغُوْ عَنِّی وَلَوْ آیۃً ’’میری جانب سے لوگوں کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘(بخاری ومسلم) ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہِ نبوت میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک متعدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کیلئے حاضر رہے اس لئے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات خدمت رسالت میں موجود نہیں اُن تک اِن نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں: ’’اور مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ سب کے سب چلے جائیں، تو کیوں نہ ہر فرقہ میں سے نکلی ایک جماعت جو مہارت ورسوخ حاصل کرتی دین میں اور تاکہ ڈرائیں اپنی قوم کو جب کہ وہ لوٹ کر آئیں ان کے پاس ،ہوسکتا ہے کہ وہ ڈریں۔ ‘‘(التوبہ122)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہسے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام ؓ کی پیروی کئے بغیر آنحضور کی پیروی کا تصور محال ہے کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباعِ سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے، ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔
اس نے صحابہ کرام ؓ کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوسِ قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام ؓ پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علمائْ حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے۔ ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے، اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملئے۔ صحابہ سراپا ادب اور پیکرِ تقویٰ تھے: ارشاد ربانی ہے: ’’بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ( ) کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کیلئے مغفرت اوراجر عظیم ہے۔‘‘(الحُجُرات3)۔ کفروفسق سے محفوظ تھے: ’’اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہہیں، اگر بہت سے کاموں میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم پر مشکل پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اوراس کی (تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر وفسق اور عصیان سے تم کو نفرت دیدی، ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل اور انعام سے راہ راست پر ہیں۔‘‘(الحُجُرات7) عبادت کے خوگر اور رحمدل تھے: ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں،( اے مخاطب) تُوان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں کبھی سجدہ کررہے ہیں اور اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، ان کے چہروں پر (عبدیت) کے آثار سجدوں کی تاثیر سے ہے۔‘‘ (الفتح 29)۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب سورہ فتح کی تفسیر کرتے ہوئے معارف القرآن، جلد8میں تحریر کرتے ہیں: ’’قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں جن میں چند آیات اسی سورۃ میں آچکی ہیں: ٭ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ مِنَ الْمُؤمِنِیْن (الفتح18)۔ ٭ اَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوآ اَحَقَّ بِہا وَاَہْلَہَا(الفتح26)۔ انکے علاوہ بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے: ٭ یَومَ لاَ یُخْزِ اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْ مَعَہٗ(التحریم8)۔ ٭ وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ المُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَّدَ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ(التوبہ100)۔ ٭ سورہ حدید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرمایا ہے: وَکُلاَّ وَعَدَ اللّٰہُ الحُسْنٰی(الحدید10)۔ ’’ ان سب سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ ٭ سورہ انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّاالحُسْنٰی اُولٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ(الانبیاء101)۔ ’’جن لوگوں کیلئے ہماری طرف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے وہ جہنم کی آگ سے دور رکھے جائیں گے۔ ‘‘ صحابہ پر طعنہ زنی جائز نہیں: امام المفسرین علامہ قرطبی اپنی مشہور ومعروف تفسیر قرطبی جلد نمبر16، ص:322پر رقم طراز ہیں: ’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیاتھا اور ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اورنبی نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے(بحوالہ معارف القرآن،ج :8)۔
ہرمشکل کا حل اتباعِ صحابہ: آج ہم مسلمانوں کو عالمگیر سطح پر مشکلات کا سامنا ہے ۔ہر محاذ پر ناکامی اور پسپائی ہے۔ دشمنانِ اسلام متحد اوراسلام کو مٹانے پرمتفق ہیں۔ مسلمانوں پر طرح طرح سے الزامات اور بہتان تراشی ہورہی،پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں میڈیا سرگرم ہے ۔یورپ میں مسلمانوں کیخلاف نفرت کی لہر چل رہی ہے ۔ہم ایک خطرناک اور نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات میں صحابہ کرامؓ کی مثالی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اِن پاکیزہ نفوس کو بھی ان حالات کا سامنا تھا بلکہ بعض اعتبار سے آج کے حالات سے زیادہ خطرناک صورتحال تھی۔ مکہ میں ابتلاء و آزمائش کے شدید دور سے گزرتے تھے، تعداد بھی کم تھی اور وسائل بھی نہیں تھے ۔ حدیبیہ میں یہودیوں اور منافقوں کی فتنہ انگیزیاں اور سازشیں تھیں۔مشرکین مکہ کے حملے اور یہودی قبائل سے لڑائیاں تھیں پھر دائرہ وسیع ہوا تو قیصر روم اور کسریٰ کے خطرناک عزائم تھے۔ ان سب حالات کا مقابلہ صحابہ کرامؓ نے جس حکمت عملی اور صبر واستقامت سے کیا وہی تاریخ ہم کو دہرانی پڑے گی اس لئے ضروری ہے کہ ہم سیرتِ صحابہؓ کا مطالعہ کریں ۔ان کو اپنا رہنما و مقتدا جان کر اِس محبت وعقیدت سے ان کی پیروی کریں کہ ان کا ہر عمل اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ صحابہ ہمارے لئے معیار حق اور مشعل راہ ہیں، ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی گوارہ نہیں۔ انکی عظمت شان کی بلندیوں تک کسی کی رسائی نہیں۔ عصر حاضر میں ان حضرات کی پیروی گزشتہ صدیوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور اہم ہے اور کامیابی کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں۔ میں نے چند آیات کے ذکر پر اکتفاء کیاہے ورنہ ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں صحابہ کرام ؓ کے فضائل ومناقب بیان کئے گئے ہیں جبکہ کتبِ احادیث میں مناقبِ صحابہ ایک مستقل باب ہوتا ہے جس میں انفرادی طور پر کبار صحابہؓ کے مناقب بھی ہیں اور مجموعی طورپر تمام اصحاب رسول کی عظمت و جلالت کا ذکر بھی ہے۔

شیئر: