Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرمایہ کاروں کے اثاثوں کی تفصیل بھتہ خوروں کے پاس کیسے پہنچی؟

سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر نے کہا ہے کہ ’بھتہ خوروں کے پاس صنعت کاروں کے اثاثوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔‘
جمعرات کو پشاور میں نیوز کانفرنس میں کرتے ہوئے سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر محمد اسحاق نے انکشاف کیا کہ ’جب نامعلوم نمبر سے کال آتی ہے تو پیسوں کی ڈیمانڈ کے ساتھ ہی بھتہ خور تاجر کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری ایک بار پھر عروج پر پہنچ چکی ہے۔ نامعلوم کالوں سے صنعت کار بالخصوص تاجر برادری شدید پریشان ہے۔
صدر چیمبر آف کامرس محمد اسحاق نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سرمایہ دار کی آمدنی، پراپرٹی اور دیگر اثاثوں کا ڈیٹا بھتہ خوروں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا تو صرف ٹیکس ریٹرنز میں شامل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس یہ ڈیٹا کہاں سے آیا ہے؟
محمد اسحاق نے کہا کہ ’ہمیں اندیشہ ہے کہ ایف بی آر کا ڈیٹا لیک ہو چکا ہے جو اب بھتہ خور استعمال کر رہے ہیں۔‘
’نادرا کو فراہم کردہ ڈیٹا بھی نامعلوم کالر کے پاس دستیاب ہے، کیونکہ زِیراستعمال اسلحے کی تفصیل بھی بھتہ خور کے پاس ہوتی ہے۔ جب  پیسے نہ ہونے کا کہا جاتا ہے تو آگے سے بتایا جاتا کہ آپ کے پاس تو لاکھوں روپے کا اسلحہ موجود ہے آپ کیسے غریب ہیں۔‘

صدر چیمبر آف کامرس محمد اسحاق کے مطابق ’نادرا کو فراہم کردہ ڈیٹا بھی نامعلوم کالر کے پاس دستیاب ہے‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

محمد اسحاق کے مطابق ’سرمایہ کاروں کے تمام خدشات سے پولیس حکام کو آگاہ کیا جا چکا ہے مگر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔‘
پشاور کی ایک معروف کاروباری شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان کے نمبروں سے بھتے کی کالیں آتی ہیں۔ نامعلوم کالر کے پاس میرے بینک اکاؤٹنس کی ساری تفصیلات موجود تھیں۔‘
’مجھے حیرت اس بات پر ہوئی جب بھتہ خور نے میرے کاروبار سے متعلق حساس معلومات مجھے بتائیں۔ آخر یہ انفارمیشن ان شرپسندوں کو کون فراہم کر رہا ہے؟‘
اردو نیوز نے اس معاملے پر حکومتی موقف کے لیے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی عبدالکریم اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطہ کیا مگر بات نہ ہو سکی۔‘
واضح رہے کہ آٹھ دسمبر کو اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالکریم نے کہا تھا کہ ’صنعت کاروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے تاجروں کو مشورہ دیا تھا کہ افغانستان سے کال آنا رواج بن گیا ہے، اس سے تاجروں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔

پشاور کی ایک معروف کاروباری شخصیت کے مطابق ’افغانستان کے نمبروں سے بھتے کی کالیں آتی ہیں‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

خیال رہے کہ ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخوا پولیس محمد علی بابا خیل نے 26 دسمبر کو اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’بھتے کی 99 فیصد کالیں ہمسایہ ملک افغانستان سے آتی ہیں اس لیے ان کو ٹریس کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’رواں سال بھتہ خوری کے 69 کیسز درج ہوئے ہیں جبکہ 163 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔‘

شیئر: