Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحائف میں برانڈ کا ٹیگ دیکھاجاتا ہے،خلوص نہیں

جب جائز آمدنی سے غیر ضروری اخراجات پورے نہ ہوں توآمدن میں اضافے کی کوشش بدعنوانی کا سبب بن جاتی ہے
- - - - - - - - - - - -
تحریر۔ سبین علی ۔ جدہ
- - - - - - - --- -
وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی تمدن میں بے شمار تبدیلیاں آئیں وہیں خوشی کا تصور بھی بدلتا جا رہا ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ خوشی کا تصور ہم پر مسلط کی گئی تبدیلی کا شکار ہے۔ ایک وقت تھا جب معمولی اشیاء بھی عام آدمی کے لئے خوشی کا باعث بنتی تھیں اور اب بھی شاید کچھ لوگوں کے لئے خوشی کا سبب بنتی ہوںگی مگر برا ہو اس برانڈ کلچر کا جس نے ہماری بہت سی خوشیاں ہائی جیک کر لی ہیں۔ تسکین اور خوشی کو روحانی و مادی ضرویات کی تکمیل سے کہیں زیادہ ذہن سازی کے نتیجے میں پیدا کردہ برانڈ لائلٹی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔
حسنِ فطرت کا مشاہدہ ،انسانی احساسات میں حقیقی انبساط کا سبب بنتا رہا ہے ۔ سبزہ، درخت ،پھول ،پودے ،معطر ہوا ،صاف ستھرے آبی ذخائر، حسین چہرے اورخوش خلقی، انسانی مسرت سے مربوط ہیں ۔ سیاحت کو ازمنہ قدیم سے ہی ایک مثبت عمل قرار دیاجاتا رہا ہے ۔ نئی زمینیں قدموں کو چھوئیں یا نئے اور منفرد لوگ ملیں،سیاحت ہمیشہ انسان کے مشاہدے اور ادراک میں نئے در وا کرنے کا سبب بنتی رہی ہے لیکن اب بدلتے وقت میں حسن فطرت سکڑتا جا رہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور آلودگی کے مسائل تو ایک طرف، کارپوریٹ کلچر نے بھی فطرت کو ہتھیا کر منافع بخش کاروبار کی شکل دے دی ہے جس سے ہماری خوشیوں کے پیمانے ہی بدل چکے ہیں ۔ جنگل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، دریا اور جھیلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ صحت افزاء مقامات پر ہوٹلوں اور معاشرے کے ایک محدود اشرافیہ کی نجی رہائش گاہوں نے ان مقامات کے قدرتی ماحول و جنگلی حیات کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے ۔ دنیا بھر کے ساحلی علاقے مظاہرِ فطرت کی بجائے کارپوریٹ کا خام مال بن چکے ہیں ۔ فائیو اسٹار ہوٹل، ریسارٹس اور مہنگی ترین رہائش کے باعث یہ ساحلی پٹیاں دن بدن عوام کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں ۔ بالالفاظ دیگر حسن فطرت کے مشاہدے کی خوشی و مسرت پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم ہوتی جا رہی ہے ۔
عوام کی سیرو تفریح و خوشی مالی وسائل کی دستیابی سے مشروط ہو چکی ہے ۔ دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو ایک جانب کئی ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی عوام کا ایک بڑا حصہ خوارک کی کمی کا شکار ہے تو دوسری طرف ہمارے ملک کے ایک بڑے طبقے کے لئے خوراک سے زیادہ ریستوران کا نام اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔ اس دوڑ میں امراء کی تقلید میں درمیانہ و سفید پوش طبقہ بھی ہانپتے ہوئے بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ انتہائی بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل غذا جو حواس کو ذائقے کے لطف سے ہمکنار کرتی ہے ، اب ذائقے کی بجائے فاسٹ فوڈ و دیگر ریستورانز کے برانڈ ناموں سے منسلک ہوکر مصنوعی مسرت کا سبب بن چکی ہے ۔ غور کیجئے کہ آپ کے شہر میں ہوٹل ، ریسارٹ اور ریستوران کس بڑی تعداد میں وجود میں آ چکے ہیں ۔
شاپنگ مالز اب باغات کا نعم البدل بن چکے ہیں۔ آپ کو خواہ گھریلو ضرورت کی چند اشیاء ہی کیوں نہ درکار ہوں مگر ان مالز سے آپ بھری ہوئی گاڑی کے ساتھ واپس لوٹیں گے کیونکہ خریداری خوشی کا نعم البدل بن گئی ہے ۔ شاپنگ کو خوشی بنانے کا عمل نہ صرف مصنوعی بلکہ مارکٹنگ کلچر کی عطا ہے۔ جب عام لوگوں کے لئے سیر و تفریح کے مقامات ،باغات اورپارک ہی نہیں بچیں گے اور ہر شہر بیسیوں شاپنگ مالز کے نرغے میں ہوگا تو لامحالہ لوگ ہفتہ وار یا سالانہ چھٹیوں پر خاندان کے ساتھ گھر سے باہر وقت گزارنے کے لئے انہی ایمیوزمنٹ پارکس، مالز، فوڈ کورٹس ،ہوٹلز اور ریستورانز کا رخ کریں گے ۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ پس منظر میں جھانکیں تو وسائل پر دسترس رکھنے والوں کے لئے بھی شاپنگ اور برانڈڈ اشیاء کی خریداری سے ملنے والی مسرت فقط خریداری کے لمحے تک محدود رہتی ہے ۔
بڑھتے ہوئے اخراجات،نام نہاد ’’سیل‘‘ سے غیر ضروری اشیاء کی خریداری اور بجٹ کا گڑ بڑ ہو جانا اس خوشی کو بہت جلد کافور کر دیتا ہے ۔ اگرکوئی برانڈ آپ کی جیب پر اضافی بوجھ نہ بنے ، پائدار ہو اور آپ کی ضرورت و شخصیت کے مطابق بھی ہوتوبرانڈڈ اشیاء خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر ہمارے عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ برانڈنیم کو مارکیٹ اکانومی کے کرتا دھرتائوں نے ذہن سازی کے نتیجے میں خوشی اور تسکین سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ خواہ اس چیز کی صارف کوکوئی ضرورت ہی نہ ہو ۔ برانڈڈ شے پہننا، برانڈڈ شے استعمال کرنا اور تحائف کے لین دین میں برانڈکا خیال رکھنا وقت کی ضرورت اور رواج بن چکا ہے ۔ ساتھ ہی یہ احساس کمتری بھی کہ برانڈ کے بغیر لوگ انہیں "آؤٹ ڈیٹڈ" اور حقیر سمجھیں گے ۔ تحائف میں خلوص کی بجائے برانڈ کا ٹیگ دیکھا جاتا ہے ۔ ضرورت کی تکمیل سے زیادہ آج کا انسان مارکیٹ کی پیدا کردہ مصنوعی ضروریات کا اسیر بنا دیا گیا ہے ۔
جب لوگوں کی معقول، جائز آمدنی بھی ان غیر ضروری اخراجات کو پورا کرنے میں ناکام رہے اوردوسری جانب رواج، فیشن اور مہنگے برانڈز کے ساتھ چلنے کی خواہش بے چین کر رہی ہو تو ذرائع آمدن میں اضافے کیلئے کی جانے والی کوشش بدعنوانی کا بڑا سبب بن جاتی ہے ۔ کرپشن ،رشوت اوربدعنوانی کی جڑوں میں آپ کوضمیر فروشی کے ساتھ ساتھ بے جا خواہشات اور کارپوریٹ کے پھندے بھی نظر آئیں گے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شاپنگ اور برانڈ حقیقی خوشی نہیں بلکہ کسی بھی انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اصل اہمیت کی حامل ہے ۔ خوشی کہیں نہ کہیں روحانی مسرت سے منسلک ہوتی ہے ۔ فضول خرچی سے بچتے ہوئے کسی مستحق کی مدد کرنا، کسی بھی مہنگی خریداری سے زیادہ بڑی خوشی کا سبب بنتا ہے ۔ اپنے ضمیر کو بدعنوانی سے بچاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اچھے کام حقیقی انبساط کا سبب بنتے ہیں جنہیں آج کا انسان اپنی شعوری کوشش سے دبا کر ملمع زدہ خوشیوں کا خریدار بن گیا ہے ۔

شیئر: