Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم کی ایگزٹ سٹریٹیجی: ماریہ میمن کا کالم

اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی لہر کو عمران خان آگے بڑھا رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں سے پی ٹی آئی اسمبلیاں توڑنے کے بعد باہر آ چکی ہے۔ ایک طرف صوبائی انتخابات کی تیاری ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت پر قبل از وقت انتخابات کروانے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
وفاق میں پی ڈی ایم گو مگو کی کیفیت میں ہے۔ الیکشن میں جانا بھی ان کے لیے چیلنج ہے اور الیکشن سے دور رہنا بھی ممکن نہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں ان کی ایگزٹ سٹریٹیجی آخر ہے کیا؟
وفاق میں حکومت لیتے وقت سب سے زیادہ جوش و خروش جے یو آئی ایف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے نظر آیا۔ اس طلاطم خیز دور میں سب سے فائدہ بھی انہی کو ہوا ہے۔
جے یو آئی کو اندازہ ہے کہ الیکشن میں ان کے امکانات بدستور محدود ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو کوئی سیریس چیلنج درپیش نہیں۔ اقتدار سے ایک دہائی سے اوپر باہر رہنا سیاسی جماعتوں کے لیے سروائیول کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
اس لیے انہوں نے سال بھر کی باری لے کر اپنے سیاسی مستقبل کو کچھ سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ گورنر سے لے کر وفاق کی اہم ترین وزارتوں تک جے یو آئی نے اس دور سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔

بلاول بھٹو کو بطور وزیر خارجہ لانچ کیا گیا ہے اور بیرونی دنیا میں ان کی ایک ساکھ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی فائدے کی بات ہو پیپلز پارٹی بھی پیچھے نہیں رہی۔ بلاول بھٹو کو بطور وزیر خارجہ لانچ کیا گیا ہے اور بیرونی دنیا میں ان کی ایک ساکھ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کو حکومت کا تجربہ بھی دلایا گیا ہے جبکہ ذمہ داری بھی کم سے کم رکھی گئی۔
سندھ میں اسی زمانے میں بلدیاتی انتخابات بھی کروا دیے گئے اور کراچی سے قومی اسمبلی میں ایک آدھ سیٹ رکھنے والی پیپلز پارٹی اب کراچی کے میئر کی امیدوار ہے۔ کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی نے کچھ حد تک اپنے آپ کو دوبارہ ان کیا ہے۔
پنجاب میں بھی ان کی کوشش جاری ہے۔ یہاں تک کے نگران وزیراعلٰی میں سب سے زیادہ لیا جانے والا نام پی ٹی آئی یا ن لیگ سے نہیں بلکہ آصف زرداری سے منسلک بتایا جا رہا ہے۔ اس طرح یہ دور پیپلز پارٹی کے لیے بھر پور سیاسی فائدے کا باعث ثابت ہوا ہے۔
ن لیگ کا معاملہ جدا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہر دن ان کا گراف نیچے ہی گیا ہے۔ معاشی طور پر معاملات گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی طور پر پنجاب میں ضمنی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کے بعد ن لیگ پنجاب حکومت کو بھی واپس لینے میں ناکام رہی ہے۔
 

حکومت میں آنے کے بعد ن لیگ کا ہر دن گراف نیچے ہی گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سب سے بڑھ کر آگے ان کے لیے کوئی مثبت خبریں نہیں ہے۔ پارٹی کے اندر بھی بے چینی اور اختلاف نمایاں ہے۔ ایک طرف شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اپنے لیے علیحدہ پلیٹ فارم بنا رہے ہیں۔ پنجاب سے بھی مختلف آوازیں آ رہی ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کا کوئی پلان نہیں۔ مریم نواز کی واپسی کی بھی صرف تاریخیں ہیں۔ 
پارٹی کے پاس بیانیے کا بحران علیحدہ ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی لہر کو عمران خان آگے بڑھا رہے ہیں۔ ن لیگ نے دوبارہ ووٹ کو عزت اور پرانی شکایتوں کے ساتھ میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو ہے مگر حکومت میں ہوتے ہوئے اس قسم کے بیانیے کی مقبولیت کا امکان کم ہی ہے۔ اس لیے اگر کسی کو ایگزٹ سٹریٹیجی کا بحران ہے تو وہ ن لیگ ہے۔
پہلے تو انہوں نے حکومت لے کر معاشی مسائل کی ذمہ داری لے لی۔ پھر پنجاب میں جس طرح کی کھینچا تانی ہوئی اس سے ان کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔ اسمبلیوں کو ہر ممکن طول دینے کی کوشش ہوئی کہ چاہے پرویز الٰہی رہ جائیں مگر الیکشن نہ کرانے پڑیں۔
مگر وہ الیکشن سے بچ بھی نہیں سکتے اور الیکشن کروانا بھی نہیں چاہتے۔ اس پر ان کے لیے مزید مشکل یہ کہ اگر گھسیٹ گھسیٹ کر قومی اسمبلی کی مدت پوری بھی کر لیں تو شاید موجودہ ووٹ بنک سے بھی بات نیچے چلی جائے۔ صوبائی انتخاب کو آگے لے جانے کا کوئی آئینی راستہ بھی موجود نہیں۔ صوبائی انتخاب کی صورت میں ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جس کو قومی انتخاب میں واضح فائدہ ملے گا۔ 
 

ن لیگ کے لیے جائیں تو جائیں کہاں اور ایگزٹ سٹریٹیجی کا مرحلہ درپیش ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ کے لیے جائیں تو جائیں کہاں اور ایگزٹ سٹریٹیجی کا مرحلہ درپیش ہے۔ کوئی بھی راستہ ان کے لیے نقصان سے مبرا نہیں ہے۔ ان سے کوئی موثر سیاسی بیانیہ بن نہیں پا رہا۔ لیڈرشپ کا بحران علیحدہ ہے۔
عمران خان سیاست کا رخ متعین کر رہا ہے۔ حکومت عملاً غیر موثر ہے، نہ چھوڑنا چاہتی ہے نہ قائم رکھے ہوئے ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل سیاسی سفر میں ن لیگ کے لیے ایسا وقت کم ہی آیا ہو گا۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کونسی حکمت عملی لے کر آتی ہے؟

شیئر: