Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک بار پھر جوڑ توڑ: ماریہ میمن کا کالم

کراچی میں گورنر کامران ٹسوری ایم کیو ایم کے دھڑوں کو جوڑنے کے مشن پر ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جوڑ توڑ کی سیاست پھر گرم ہے اور پنجاب میں تو ایک بار پھر حکومت بدلنے کی خبروں کے ساتھ ایوان میں جوڑ توڑ عروج پر ہے۔
سندھ خصوصا کراچی اور بلوچستان میں بھی پارٹیوں کے ٹوٹنے اور جڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹوٹنے کا کام کم ہے اور جڑنے کا زیادہ۔
جب بہت سے بے جوڑ یک دم جڑنے لگیں تو شک سیدھا تیسری قوت کی طرف جاتا ہے۔
پنجاب کی طرف آئیں تو بات اب ایک ایک، دو ایم پی اے تک کا پہنچی ہے۔ ہر روز دونوں طرف سے ایک دو گول ہوتے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں تو ن لیگ کے روٹھے ایم پی اے شہباز شریف کے پاس واپس جا پہنچتے ہیں۔ پنجاب حکومت کا تو جو بھی فیصلہ ہو مگر اصل بساط الیکشن کی تیاری میں بچھنی یا بچھائی جانی ہے۔
محمد سرور، عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں خبریں عام ہیں کہ وہ ایک نئی پارٹی بنانے جا رہے ہیں۔ ساؤتھ پنجاب کے سیاست دان اکثر ہی آسان ہدف لگتے ہیں اس لیے کسی ساؤتھ پنجاب بلاک کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی جس کی پنجاب میں حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے وہ بھی ایک بار پھر اپنی طرف سے متحرک ہے۔ 
پنجاب میں تو شاید پیپلز پارٹی کی دال زیادہ نہ گلے مگر بلوچستان ان کا پسندیدہ میدان ہے۔ کئی سیاستدان زرداری صاحب کے ہاں حاضری دیتے نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے، جسے عرف عام میں باپ کہا جاتا ہے، پیپلز پارٹی میں ضم ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔
باپ کا بننا بھی ایک سرپرائز تھا اور اس کا اختتام بھی بالکل اچانک ہو گا۔ باپ کے حوالے سے ہی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کردار بڑا دلچسپ ہے۔
پی ڈی ایم پہلے ان کے مقابلے میں اپوزیشن میں تھی جب کہ پی ٹی آئی والے ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اب پی ٹی آئی تو اپوزیشن میں ہے، پی ڈی ایم کا پتا نہیں مگر سنجرانی صاحب بدستور چیئرمین برقرار ہیں۔  
بلوچستان کے ساتھ سب سے دلچسپ سرگرمی کراچی میں دیکھنے میں نظر آرہی ہے۔ وہاں گورنر کامران ٹیسوری جو کہ ماضی میں ایم کیو ایم کے مزید دھڑوں میں بکھرنے کا باعث تھے، اب یک دم ایم کیو ایم کو جوڑنے کے مشن پر ہیں۔
کیا پی ایس پی اور کیا حقیقی گروپ اور ساتھ میں فاروق ستار بھی، وہ سبھی کے ہاں جا پہنچے ہیں۔ اور اوپر سے مزید دلچسپ یہ کہ آگے بھی ان کا استقبال ایسے ہو رہا جیسے کبھی بچھڑے ہی نہ ہوں۔
ایسا لگتا ہے کہ کوئی جادو کی چھڑی ہے جو یک دم چلنا شروع ہوئی ہے اور ہر کوئی اس کے زیر اثر گھر واپس آتا جا رہا ہے۔ ابھی لندن سے رابطوں کی خبر نہیں آئی۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی شک ہوا بھی تو دور ہو جائے گا۔ 

پیپلز پارٹی جس کی پنجاب میں حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے وہ بھی ایک بار پھر اپنی طرف سے متحرک ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سوال یہ ہے کہ اتنے سارے کرداروں کا ایک ساتھ متحرک ہو جانا صرف حسن اتفاق تو نہیں ہو سکتا۔ خصوصا جب ان کرداروں کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ ان کے سیاسی فیصلوں میں وقت کے ساتھ ساتھ خود مختاری کا عناصر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاست میں کچھ بھی حرف آ خر نہیں ہوتا، بات چیت کے دروازے کھلے رہتے ہیں، کل کے دشمن آ ج کے دوست وغیرہ وغیرہ۔
بدقسمتی سے اس طرح کے ’اقوال زریں‘ ہماری سیاسی ڈکشنری میں عام ہیں مگر دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ جوڑ تؤڑ کے سیاسی کھیل کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کے کچھ سبق ہیں۔ 
سب سے پہلا سبق تو یہ ہے غیر فطری اور غیر حقیقی بندوبست زیادہ دیر برقرار نہیں رہتے۔ جلد یا بدیر ان میں دراڑ ضرور آتی ہے۔
دوسرا سبق یہ ہے عوام اب ان سیاسی کھیلوں کو پہچان بھی چکے ہیں اور اس سب سے متنفر بھی ہو چکے ہیں۔ سیاست چاہے بدستور دائروں میں سفر کرتی رہے مگر عوام خصوصا نوجوان ووٹر اب اس دائرے کو توڑ چکا ہے۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ اگر سیاستدانوں کے پاس کوئی پروگرام اور کوئی بیانیہ نہ ہو تو صرف اتحاد بنانے سے ان پر عوام اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
آخری اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ عوام نے ایک سے زیادہ دفعہ ان اتحادوں کو مسترد کیا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ ان کو ملانے والی قوت کوئی اور ہے۔
اس سب کے باوجود جوڑ توڑ جاری رکھا جائے گا مگر اس کے نتائج صرف عوام ہی بھگتیں گے۔

شیئر: