Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شبِ برأت ، من گھڑت ’’ اسلامی ‘‘ تہوار

بعض اسلاف کا خیال ہے کہ لیلۃ المبارکہ سے مراد نصف شعبان ہے لیکن یہ قول نصوصِ قرآن کے مخالف ہے ، قرآن کا نزول رمضان میں ہوا ہے
* * * *محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
 15 شعبان کے دن کا بڑے اہتمام کیساتھ روزہ رکھا جاتا ہے اور رات کو قیام کیا جاتا ہے ۔ اس رات کو ’’شبِ برأ ت ‘‘ یا ’’شبِ قدر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ احادیث میں اور فقہاء ومحدثین کی تصریحات میں اس رات کے بارے میں شبِ برأت یا شبِ قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی آج تک عربوں میں ایسے ناموں سے یہ معروف ہے ۔ یہ نام صرف برصغیر تک ہی ہیں اور جن بعض روایات میں اس رات کا ذکر آیا ہے، وہ بھی نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے ۔ ویسے بھی شبِ قدر یا شبِ برأ ت سے مراد دراصل وہ لیلۃالقدر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل کرکے اِس اُمت کیلئے نظامِ زندگی مہیا کیا اور جادئہ حق کی طرف رہنمائی فرمائی تھی لہٰذا یہ تعین کرنا ہوگا کہ نزولِ قرآن کی رات کون سی اور کب ہے ؟ اُس رات کی صراحت خود قرآنِ کریم میں موجود ہے ،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو راہ بتلاتا ہے لوگوں کو اور اس میں کھلی دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق کو نا حق سے پہچاننے کی۔‘‘ (البقرہ185)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نزولِ قرآن کے مہینے کی تعین فرمادی ہے جو کہ رمضان المبارک ہے۔
پھر یہ کس رات میں نازل کیا گیا ؟ اس کا ذکر سورئہ قدر میں موجود ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’ ہم نے اسے شبِ قدر میں نازل کیا ۔‘‘ پھر یہ شبِ قدر صحیح احادیث کی رو سے ماہِ رمضان المبارک کی آخری 10 راتوں اور پھر اُن میں سے بھی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے ۔ نزولِ قرآن کی اس رات کو سورۃ الدخان میں شب ِ مبارک کہا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے : ’’ حٰمٓ۔ قسم ہے اِ س کتابِ مبین کی ، ہم نے اِسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے اور ہم لوگوں کو (اپنے عذاب سے) متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، اسی رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے، ہمارے پاس سے حکم لے کر ۔‘‘ (آیت 1تا5)۔ یعنی سال بھر میں جو بڑے بڑے کام سر انجام پانے ہوتے ہیں،اُن کا آخری فیصلہ اللہ کے حکم سے کردیا جاتا ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ پیدائش و اموات ، خوشی و غمی اور رزق و فقر کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں، وہ اُسی مبارک شب میں ہوتے ہیں جس میں قرآن کریم نازل ہوا ۔ وہ شبِ مبارک ، شبِ قدر ، رمضان میں ہے نہ کہ ماہِ شعبان میں ۔یہ نام اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو دیا ہے ۔
سورۃالدخان کی مذکورہ آیت میں جو ’’لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ‘‘کے الفاظ آئے ہیں ان سے بعض لوگوں نے15 شعبان کی رات مراد لی ہے لہٰذا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورۃالدخان کی مذکورہ آیت کی تفسیر قدرے تفصیل سے ذکر کر دی جائے ۔’’ معالم التنزیل المعروف تفسیر خازن‘‘ میں ہے : ’’حضرت قتادہ اور ابنِ زید ؒ نے کہا ہے کہ لیلۃ المبارکہ سے وہ لیلۃ القدر مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل کیا۔ ‘‘ اور آگے لکھا ہے : ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ ‘‘ اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ اہلِ علم کے نزدیک جو بات صحیح تر ہو اسے پہلے معروف کے صیغے سے ذکر کردیاجاتا ہے اور جو غیر معتبر اقوال ہوں انہیں مجہول کے صیغہ میں لایا جاتا ہے لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ امام خازن کے نزدیک حضرت ابو قتادہ ؒ اور ابن زید ؒکی تفسیر ہی زیادہ معتبر اور صحیح تر ہے اور انکے نزدیک یہاں لیلۃ المبارکہ سے رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہی مراد ہے نہ کہ نصف شعبان والی رات اور یہ دوسرا قول ضعیف و مرجوح ہے ۔ تفسیر جامع البیان میں جمہور اہلِ علم کا مسلک یہی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے البتہ مرجوح قول ذکر کرنے کیلئے یہ بھی لکھا ہے : ’’ بعض کے نزدیک اس سے نصف شعبان کی رات مراد ہے۔ ‘‘ دوسری مختصر و جامع تفسیر جلالین میں’’ تفسیر المدارک‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے : ’’اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے ، یا پھر نصف شعبان والی رات۔ ‘‘ اور آگے اس لیلۃ المبارکہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس مبارک رات میں قرآنِ کریم ساتویں آسمان ( لوحِ محفوظ)سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا اور پھر شعبان و رمضان کی دونوں راتوں کے بارے میں لکھا ہے : ’’ جمہور اہلِ علم کے نزدیک اس مبارک رات سے پہلی( یعنی رمضان المبارک والی لیلۃ القدر) ہی مراد ہے۔ ‘‘ اِن تفسیری حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سورۃالدخان کی آیت3 میں مذکور رات رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے ، نہ کہ15 شعبان والی رات۔ تفسیری کتب کی طرح ہی شروحِ حدیث میں بھی یہی بات کہی گئی ہے ،مثلاً : معروف حنفی محدث ملا علی قاریؒ’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ‘‘میں لکھتے ہیں : ’’بعض اسلاف کا خیال ہے کہ لیلۃ المبارکہ سے مراد نصف شعبان کی رات ہے لیکن یہ قول نصوصِ قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں لیلۃ القدر میں ہواہے لہٰذا ’’اللیلۃ المبارکہ ‘‘سے لیلۃ القدرہی مراد ہے ۔
اس طرح آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری’’ تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی‘‘ میں رقمطراز ہیں : ’’بے شک آیت: اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِيْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃ میں لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍسے مراد جمہور کے نزدیک لیلۃ القدر ہے ،بعض اُسے نصف شعبان کی رات سمجھتے ہیںمگر یہ قول مجروح و ضعیف ہے۔ ‘‘ سابقہ تفصیلات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 15 شعبان کی رات کے یہ مروّجہ نام، شب ِ قدر یا شب ِ برأ ت، کتب ِ تفسیر و حدیث میں نہیں پائے جاتے اور اس رات کا جو ذکر آیا ہے، وہ صرف نصف ِ شعبان کی رات کے حوالہ سے ہے۔ جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے ،تو ہمارے یہاں ا س کے5 مختلف انداز اور طریقے مروّج ہیں : ٭ اُس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے یا حلوے مانڈے تیار کئے جاتے ہیں اور انہیں خود تیار کرنے والے ہی مل بیٹھ کر مزے لے لیکر کھا جاتے ہیں (مساکین کو شامل نہیں کرتے)۔
٭آتش بازی اور چراغاں کیا جاتا ہے ، خوب گولہ بارود چلایا اور فضول خرچی کی جاتی ہے ۔
٭بعض لوگ اس رات کے استقبال کیلئے گھروں کو صاف کرتے اور خوب سجاتے ہیں اور یہ سب اس عقیدہ کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے کہ اس رات فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں۔
٭ بعض جگہوں پر لوگ اس رات خصوصی اہتمام کیساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت اور دعاکے لئے جاتے ہیں ۔
٭اس دن کا روزہ رکھا جا تا ہے اوراس رات کو ذکر و عبادت کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس پہلے طریقہ یعنی اچھے اور عمدہ کھانے اور حلوے مانڈے تیار کرنے اور کھانے کا تعلق ہے تو یہ اسلامی تہوار وں کی علامت سمجھے جاتے ہیںجبکہ نصف شعبان کی رات کو سرے سے اسلامی تہوارکہا ہی نہیں جا سکتا اور اسے عیدین یا حج کی شکل دینا غلط ہے۔ اگر کوئی کہے کہ ہم تہوار سمجھ کر ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اچھے کھانے پکانا کسی بھی دن جائز نہ ہو؟ اِس سلسلہ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بلا شبہ اسراف و تبذیر یعنی فضول خرچی کے ضمن میں نہ آنے والے کھانے تیار کرنے میں واقعی کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ ہر روز یا اکثر ایام میں معمول ہو۔ اگر یہ صرف 15شعبان کی شام کیساتھ خاص کر دیا جائے تو معاملہ یقینا مشکوک سا ہوجاتا ہے اور مشکوک سے احتراز ہی مؤمن کی شان ہے ۔
معروف حنفی عالم علامہ عبد الحیٔ لکھنوی ؒ کا اس رات کے حلوے کے بارے میں فتویٰ ہے کہ اسکے متعلق کوئی نص نفی یا اثبات میں وارد نہیں لہٰذا حکم ِشرعی یہ ہے کہ اگر پابندیٔ رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازم ہوگی ، ورنہ کوئی حرج نہیں۔ ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہؒ نے’’ اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں فرمایاہے : ’’اور اسی15شعبان کی رات کو تہوار منانا ، کھانے پکانا اور زیب و زینت کا اظہار کرنا بھی ہے اور یہ سب بدعات کے قبیل سے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔ ‘‘ شب ِبرأ ت کے منانے کادو سر اطریقہ یہ ہے کہ اس رات بڑے زورو شور سے آتش بازی کی جاتی ہے، گولہ بارود چلایا جاتاہے ، پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں ،موم بتیاں اور شمعیں جلاکر چراغاں کیا جاتا ہے۔ آتش بازی کیساتھ کسی دن یا تہوار منانے کا اسلام میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں بلکہ شرعاً یہ افعال قبیح و مذموم ہیںکیونکہ ضرورت سے زیادہ کسی جگہ بھی روشنی کرنا اور لا تعداد شمعیں جلانا جائز نہیں کیونکہ یہ کھلا اِسراف و تبذیر اور صریح فضول خرچی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ممنوع قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے جیسا کہ سورئہ بنی اسرائیل ،آیت26،27میں ارشاد ِ الٰہی ہے: ’’اور بے جا فضول خرچی نہ کرو ،بیشک بے جا مال اُڑانے والے شیطان کے بھائی(دوست وتابع ) ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘ یہاں اسراف و تبذیر یا فضول خرچی کو ایک شیطانی فعل اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی اور پیروکار کہا گیا ہے کیونکہ جو شخص اپنے مالکِ حقیقی کے دئیے ہوئے مال کو اس کی نافرمانی میں خرچ کرتا ہے، وہ شیطان ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
حضرت محدث دہلوی ؒ اپنے تفسیری حواشی’’ موضح القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یعنی مال بڑی نعمت ہے اللہ کی جس سے خاطر جمع ہو عبادت میں اور درجے بڑھیں بہشت میں، اس کو بے جا اڑانا ناشکری ہے۔‘‘ جس طرح تبذیر کی قباحت وممانعت آئی ہے، ایسے ہی قرآنِ کریم کے متعدد مقامات پر اِسراف کی مذمت کی گئی ہے جیسا کہ سورۃ الانعام، آیت141 میں ارشاد ِ الٰہی ہے : ’’اور اپنے مال کو بے جا مت اڑاؤکیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ بے جا مال اڑانے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘ سور ۃالاعراف کی آیت 31میں فرمایا : ’’کھاؤ اور پیو اور اڑاؤ نہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ اڑانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ سورۃ الفرقان، آیت 67 میں مومنوں اور اللہ والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اور وہ لوگ بھی اللہ کے محبوب بندے ہیں جو خرچ کرتے وقت بیکار اپنا پیسہ نہیں اڑاتے اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں کہ جائز ضرورت میں بھی نہ اٹھائیں اور اِن کے بیچ بیچ میں ان کا خرچ رہتا ہے۔ ‘‘ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ تبذیر اور اِسراف میں فرق ہے۔حلال و جائز مقام پر حد اعتدال اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اِسراف ہے جبکہ حرام وناجائز مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے اور اس کیلئے قلیل و کثیر کی کوئی حد نہیں بلکہ اگر ایک پیسہ بھی خرچ کریگا تو حرام ہوگا اور ایسا شخص شیطان کا بھائی اور پیروکار ٹھہرے گا ۔
علاوہ ازیں یہ آتشبازی و چراغاں دینِ حق کے ساتھ ایک صریح اور بھونڈا مذاق ہے اور دشمنان ِ دین کی سازشی کارروائیوں کو عملی جامہ پہنا کر اُن سے تعاون اور اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ اپنے دین کو لہو و لعب یا کھیل تماشا بنادینا عذابِ الٰہی کو آواز دینے والی بات ہے ۔قرآنِ کریم پڑھ کر دیکھیں کہ پہلی قوموں میں سے جن اقوام نے اپنے دین کو تماشا بنایا اُن کا کیا انجام ہوا؟ اور انہیں کن کن عذابوں میں مبتلا کیا گیا؟ ہمیں اُن قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ورنہ عذا ب ِ الٰہی کوئی دور نہیں۔ اس سلسلہ سورۃ الانعام ،آیت70 میں ارشادِ الہٰی ہے : ’’چھوڑ وان لوگوں کو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے ،ہاں !مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہیں کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہوجائے اور اگر گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کیلئے نہ ہو اور اگر وہ ہر ممکن چیز بھی فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو اپنے انکار ِ حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پینے کو پانی اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا ۔‘‘ اِن آیات میں اقوام ِ ماضی اور امم ِ سابقہ کو جو وعیدیں سنائی گئی ہیں، ہمیں اُن سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے اور اپنے دین کو آتشبازی اور چراغاں و غیرہ سے کھیل تماشا نہیں بنا لینا چاہئے۔

شیئر: