Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب آفتاب سلطان مستعفی، ’دباؤ کے جواب میں انکار کیا‘

وفاقی کابینہ نے گزشتہ برس آفتاب سلطان کو چیئرمین نیب تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔ (فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر)
نیب چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہونے والے آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ ’میں نے استعفٰی دیا ہے اور مجھے اس کا کوئی ملال نہیں۔‘
منگل کو نیب ہیڈکوارٹرز میں الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آفتاب سلطان نے کہا کہ ’یہ سمجھتے تھے کہ چیئرمین کو دباؤ میں لے آئیں گے مگر میں نے (جواب میں) ’نو‘ کہا۔‘
’جو لوگ تجربات کر کے لوگوں کو لا کے بٹھا دیتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
قبل ازیں چیئرمین نیب کے مستعفی کی خبر سامنے آئی تھی جس کے بعد وزیرِاعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفی منظور کر لیا ہے۔
پی ایم آفس کے مطابق ’چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفٰی پیش کیا تھا۔‘
بیان کے مطابق وزیرِاعظم نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایمانداری اور فرض شناسی کی تعریف کی۔
’چیئرمین نیب آفتاب سلطان کے اصرار پر وزیرِاعظم نے ان کا استعفی منظور کر لیا۔‘
نیب کے ایک اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو ان کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’نیب ہیڈکوارٹرز میں ان کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔‘
گزشتہ برس وفاقی کابینہ نے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان کو چیئرمین نیب تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
پولیس سروس سے گریڈ 20 میں ریٹائر ہونے والے آفتاب سلطان سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے دور میں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو تعینات رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آفتاب سلطان پر نیب نے 2020 میں ایک ریفرنس بھی بنایا تھا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر حکام بھی نامزد تھے۔
اس ریفرنس میں نامزد افراد پر غیر ملکی اعلٰی شخصیات کی سکیورٹی کے لیے گاڑیاں خریدنے میں بے ضابطگی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

آفتاب سلطان سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے دور میں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو تعینات رہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

تاہم نیب ہیڈ کوارٹرز میں تعینات ایک سینیئر افسر کے مطابق ’اس ریفرنس کو نیب ایگزیکٹو بورڈ میں منظور تو کیا گیا تھا مگر چونکہ اس میں مواد نہیں مل سکا تو پراسیکیوٹر کے مشورے کے بعد عدالت میں فائل نہیں کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ نیب تحقیقات میں آئی بی کی طرف سے گاڑیوں کی خرید میں کوئی بےقاعدگی نہیں پائی گئی تھی تاہم ان کے دیگر اداروں کی جانب سے استعمال پر اعتراضات باقی رہ گئے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہ ایسا جرم نہیں جو نیب کے دائرہ کار میں آتا ہو۔
’یہی وجہ ہے کہ پھر اسے (ریفرنس) عدالت میں نہیں لے جایا گیا تاہم کیس کو طریق کار کے مطابق بند بھی نہیں کیا گیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت یہ کیس نیب کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں