Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگلش چینل کے راستے برطانیہ میں داخلہ، تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے قانون سازی

وزیراعظم رشی سوناک کہا ہے کہ ’تارکین کی آمد کو روکنا ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
برطانیہ کی حکومت پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے نئی قانون سازی کی تفصیلات سے آج (منگل کو) آگاہ کرے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ قانون سازی سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے غیرقانونی طور پر انگلش چینل عبور کرنے پر روک لگانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
یہ تارکینِ وطن عموماً چھوٹی کشتیوں کے ذریعے چینل عبور کر کے برطانیہ میں داخل ہوتے ہیں۔
نئے مجوزہ قانون کی منظوری کی صورت میں نہ صرف یہ کہ غیرقانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن کو ڈی پورٹ کیا جائے گا بلکہ ایک مرتبہ ڈی پورٹ ہونے والے کو دوبارہ برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔
ڈی پورٹ ہونے والے اس کے بعد برطانیہ کی شہریت بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون سازی بالخصوص برطانیہ میں دوبارہ داخلے اور شہریت لینے پر پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ناقابلِ عمل اور پناہ گزینوں کو نشانہ بنانے والی قانون سازی ہے جبکہ حکومت کے وزراء کا اصرار ہے کہ یہ دنیا کی مصروف ترین تجارتی گزرگاہ میں غیرقانونی سفروں کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم رشی سوناک کہا ہے کہ تارکین کی آمد کو روکنا اس برس ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔
اس معاملے میں حکومت پر قدامت پسند ووٹرز اور میڈیا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ قانون سازی فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں کے ساتھ جمعے کو متوقع ایک میٹنگ سے چند روز قبل سامنے آئی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس میٹنگ میں ’کشتیوں کو روکنے‘ کے لیے تعاون بڑھانا ایجنڈے میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہو گا۔
برطانیہ کی وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے نئے قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فرانس کا کردار کراسنگ کو روکنے میں ’اہم‘ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ قانون اس بات کو یقینی بنائے گا کہ غیرقانونی طور پر برطانیہ پہنچنے والے لوگوں کو حراست میں لیا جائے اور فوری طور پر انہیں ان کے آبائی ملک یا کسی تیسرے محفوظ ملک میں واپس بھیج دیا جائے۔‘

شیئر: