Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں آباد کرنے کی سکیم تاخیر کا شکار، افغان صحافیوں کی مشکلات میں اضافہ

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 24 ہزار سے زائد افغان برطانیہ میں آباد ہوئے۔ فوٹو: اے پی
آزادی صحافت کے حق میں کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغان شہری بالخصوص صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں برطانیہ ناکام ہو رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کرنے میں تاخیر کا مطلب یورپی اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور فرانس کا لندن کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اگست 2021 میں سابق وزیراعظم بورس جانسن نے افغان ری لوکیشن اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کے نام سے ایک سکیم متعارف کی تھی جس کا مقصد افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کو برطانیہ میں آباد کرنا تھا۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانوی حکومت کو افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری کی سکیم کے اگلے مرحلے کی تفصیلات جاری کرنا ہیں۔
صحافتی تنظیمیوں کا کہنا ہے کہ متعدد افغان شہریوں نے ان سے مدد کی اپیل کی ہے، جبکہ اس سے قبل برطانیہ کے اتحادی یورپی ممالک متعدد افغان صحافیوں کو پناہ دے چکے ہیں۔
صحافتی گروپس انڈیکس سینسرشپ، نیشنل یونین آف جرنلسٹس، پی ای این انٹرنیشنل اور انگلش پی ای این نے برطانوی سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین سے افغان شہریوں کی آباد کاری میں مدد کی درخواست کی ہے۔
انڈیکس آن سینسرشپ کے ایڈیٹر مارٹن برائٹ کا کہنا ہے کہا کہ افغانستان، پاکستان یا ایران میں پناہ لینے والے افغان صحافیوں کو برطانوی حکومت کہ جانب سے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی جبکہ وہ اے سی آر ایس سکیم کے تحت برطانیہ میں آباد ہونے کے اہل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے سی آر ایس سکیم میں پیش رفت کے حوالے سے واضح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی افغان شہریوں کو کسی قسم کی کوئی مدد نہیں فراہم کی جا سکتی جس سے صحافیوں کے لیے گمشدگی، تشدد، گرفتاری، قید اور قتل کی دھمکیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

افغانوں کو برطانیہ میں آباد کرنے کی سکیم تاخیر کا شکار ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے افغان صحافیوں کی اکثریت ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے تاہم ملک بدر کیے جانے کے امکان کے باعث ان کے لیے خطرات برقرار ہیں۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حکام کی جان سے اکثر افغان صحافیوں کے ذاتی الیکٹرانکس بشمول فون، لیپ ٹاپ اور کیمرا ضبط کرنے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔
پاکستان میں پناہ لینے والی ایک خاتون افغان صحافی نے بتایا کہ ’اُس وقت میں قیامت سے گزری ہوں۔ پاکستانی معاشرے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک، نسل پرستی اور تعصب ہے، بالخصوص افغان خواتین کے لیے۔‘
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اکثر افغان صحافی مغربی میڈیا تنظیموں کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس کے باوجود برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے کام کرنے والے آٹھ صحافیوں کا برطانوی ویزہ مسترد ہو گیا تھا۔ تاہم برطانوی محکمہ داخلہ کے خلاف قانونی کارروائی کے بعد ان صحافیوں کی ویزہ ایپلیکیشن پر دوبارہ غور کیا گیا۔
برطانوی حکومت کے ترجمان کے مطابق سکیم کے تحت 24 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے جس میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان، سکالر، صحافی، جج اور دیگر شامل ہیں۔

شیئر: