Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمارتوں کی نہیں فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے: چیف جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ قوموں کی تقدیر محض عدالتی فیصلوں سے نہیں بلکہ ان کی قیادت سے بدل سکتی ہے۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے جب ضلعی عدالتوں میں لوگ غلط برتاؤ کرتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔
’عوام کو دیکھنا چاہے کہ لوگ کس انداز میں عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے تمام فیصلوں میں چاہے وہ متنازع ہو یا مقبول  ہمیشہ آئین و قانون کو مقدم رکھا۔‘
کوئٹہ میں سپریم کورٹ  کی نئی عمارت میں استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی عمارت کےقیام سے حصول انصاف میں بہتری ہوگی۔
’عمارتوں نہیں فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے ایسے فیصلے جو قوم کی تقدیر بدل دیں اور انہیں صحیح راستے پر لاسکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قوموں کی تقدیر محض عدالتی فیصلوں سے نہیں بلکہ ان کی قیادت سے ہوسکتی ہے۔ ’ملک میں قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ سچائی اور دیانت داری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ترقی کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ امن اور سکون کے لیے سب کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا، ملکی حالات سب کے سامنے ہیں لہٰذا اختلافات کو چھوڑ کر ملک کے لیے سوچنا چاہیے۔‘
عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں میں بہت صلاحیتیں ہیں لیکن افسوس کہ بلوچستان اور اس خطے کو جتنی ترقی کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کرسکا۔ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کی ذمہ داری صرف ریاست پر نہیں ڈال سکتے، صوبے کی ترقی کے لیے ہر انسان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور شہریوں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے جب کہ ہماری ذمہ داری ٓئین اور قانون کے مطابق اداروں کا تحفظ ہے وہ سویلین ہویا دوسرے ہو۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون اور عدالتوں کا احترام ہونا چاہیے۔ ’ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو محفوظ رکھا ہے لیکن تکلیف کی بات ہے کہ ضلعی عدالتوں میں لوگ میں غلط برتاؤ کرتے ہیں یہ ناقابل قبول ہے۔ جب قانون و عدالت کی عزت و احترام نہیں ہوگا تو افراتفری کی صورتحال ہوگی۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون اور عدالتوں کا احترام ہونا چاہیے۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 17 ججز ہیں جن میں سے اس وقت 15 موجود ہیں۔ ’پانچ چھ بنچز بنتے ہیں جب کہ ان کے سامنے ہزاروں کیسز ہوتے ہیں تمام کیسز کو بروقت سننا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے وسائل اتنے وسیع نہیں جتنی لوگوں کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ ان کیسز کو ہنگامی بنیادوں پر سنتی ہیں جو قانونی نکات، اختیارات سے تجاوز اور قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات سے متعلق ہوں۔‘
تقریب میں سپریم کورٹ کے جج جمال مندوخیل، یحییٰ آفریدی، بلوچستا ن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان  اور دیگر بھی موجود تھے۔ سپریم کورٹ کے دو مختلف بنچوں نے  کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں کیسز کی سماعت بھی کی۔

شیئر: