Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر سے تیندوے کے نوزائیدہ بچے غائب، ’ایسا لگا کسی نے میرے بچوں کو اٹھا لیا‘

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع حویلی کے ایک گاؤں میں جنم لینے والے تیندوے کے تین بچے پراسرار طور غائب ہو گئے ہیں۔ 
یہ واقعہ ضلع حویلی کے گاؤں جبی سیداں میں پیش آیا جہاں آبادی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک زیرتعمیر گھر کے باتھ روم میں مقامی افراد نے جنگلی جانور کے تین بچوں کو دیکھا۔ 
جمعرات کو سوشل میڈیا پر تیندوے کے ان بچوں کے تصاویر مقامی افراد نے پوسٹ کرنا شروع کیں اور ساتھ یہ بتایا گیا کہ یہ بچے ’محفوظ مقام‘  پر پہنچ گئے ہیں۔
حویلی میں وائلڈ لائف کے تحفط پر کام کرنے والے ایک مقامی نوجوان راجہ ثروت کیانی نے اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر اس واقعے کی تفصیل یوں بتائی کہ ’بدھ کو دن 11 بجے ایک مقامی شخص نے ایک مادہ تیندوے کو تین بچوں کے ساتھ دیکھا تو وہ ڈر کر گاؤں کی جانب بھاگا۔‘
’اس شخص نے جب گاؤں والوں تو بتایا تو کئی لوگ اس غیرآباد گھر تک پہنچ گئے۔ لوگوں کے پہنچنے پر مادہ تیندوا وہاں سے بھاگ گئی جبکہ تینوں بچے وہیں رہ گئے۔‘ 
ثروت کے بقول ’تنیوں بچے پورا دن وہیں رہے۔ ان کے ساتھ مقامی افراد تصاویر اور سلیفیاں بناتے رہے۔ اسی دوران وائلڈ لائف کے اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے۔‘ 
’وائلڈ لائف والوں نے دن بھر انتظار کیا کہ ان بچوں کی ماں واپس آئے لیکن شام تک انہیں مادہ تیندوا کے کوئی آثار نہ مل سکے۔‘ 
’بعدازاں شام افطار کے بعد جب وائلڈ لائف کا عملہ دوبارہ اس جگہ پر گیا تو وہ بچے وہاں سے غائب تھے۔‘ 

’توقع تھی کہ ان کی ماں واپس ضرور آئے گی‘

اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے اُردو نیوز نے حویلی میں وائلڈ لائف ہیڈ واچر سید امتیاز شیرازی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بدھ کو دن 11 بجے ہمیں جبّی سیداں کے سید حنیف شاہ کے بیٹے علی اکبر کی فون کال موصول ہوئی۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’علی اکبر نے ہمیں اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ہمارے زیرتعمیر گھر میں کسی جنگلی جانور کے بچے ہیں۔ آپ آ کر دیکھیں۔‘

مقامی نوجوان نے بتایا کہ’وائلڈ لائف والوں نے دن بھر انتظار کیا لیکن انہیں مادہ تیندوا کے کوئی آثار نہ مل سکے‘ (فوٹو بشکریہ: ثروت کیانی) 

’ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے مقامی افراد کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ لوگوں نے ان بچوں کے ساتھ تصویریں بھی بنائی ہوئی تھیں۔‘ 
’ہم دوپہر سے شام مغرب کے وقت تک وہاں موجود رہے اور تینوں بچے بھی وہیں موجود تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ ان کی ماں کی واپس ضرور آئے گی۔‘ 
’جب شام تک مادہ تیندوا نہیں آئی تو ہم افطاری کے لیے اس گھر سے ذرا اوپر کاشف صاحب کے گھر روزہ افطار کرنے چلے گئے۔ اوپر سے ہم دیکھتے بھی رہے کہ نیچے اس غیرآباد گھر میں کوئی نقل و حرکت تو نہیں ہو رہی ہے۔‘ 
’افطار کے بعد شدید بارش، ژالہ باری اور جھکڑ چلنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے ہم وہیں برآمدے میں بیٹھے رہے۔ جب بارش تھمی تو تقریباً پونے آٹھ بج چکے تھے۔‘ 
’ہم نے نیچے جا کر دیکھا تو بچے غائب تھے۔ پھر ہم نے آس پاس کے رہائشیوں کو بلا لیا لیکن ان سب نے تیندوے کے بچوں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہم رات 10 بجے تک مادہ تیندوے اور اس کے بچوں کو تلاش کرتے رہے۔‘ 
سید امتیاز شیرازی نے بتایا کہ ’رات پونے 10 بچے اس گھر پاس ہمیں وہ مادہ تیندوا پھر نظر آئی ۔ ہمارے پاس کچھ زیادہ آلات تو نہیں تھے۔ ہم نے موبائل فون سے اس پر لائٹ ڈالی تو اس کی آنکھیں روشن ہوئیں۔‘ 
’ہمارا خیال تھا کہ وہ حملہ کرے گی لیکن مادہ تیندوہ اس گھر میں داخل ہونے کی بجائے اس کے پیچھے سے گزر کر قریبی نالے کی طرف چلی گئی۔ پھر اس نالے سے ہمیں ایک آواز آئی۔‘ 

’مجھے ایسا لگا جیسے میرے اپنے بچے غائب ہو گئے ہوں‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا  خیال یہ ہے کہ وہ شام کے وقت شاید اپنے بچوں کو ایک ایک کر کے  اس گھر لے گئی۔ اس نالے سے اوپر ایک قبرستان ہے اور بظاہر یہی اس کے جنگل میں جانے کا راستہ ہے۔ جب رات کو وہ نالے جانب گئی تو کتوں نے بھی بھونکنا شروع کر دیا تھا۔‘ 
’جب وہ گھر میں داخل ہونے کے بجائے اس کے قریب سے گزر گئی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے اپنے بچوں کو ریسکیو کر لیا ہے۔‘ 
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جب آپ شام کو افطار کے لیے وہاں سے دوسرے گھر میں گئے تو کسی نے تیندوے کے بچے غائب کر دیے ہوں؟ اس سوال کے جواب میں امتیاز شیزاری نے کہا کہ ’اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے دیکھا کہ تیندوے کے بچے غائب ہیں تو یقین مانیں مجھے ایسا لگا کہ کسی نے میرے اپنے بچے اٹھا لیے ہیں۔‘ 
’میرا وائلڈ لائف سے بہت گہرا تعلق ہے اور یہ بات میرے محکمے کے افسران کو بھی پتا ہے۔ میں آج تک بے شمار جنگلی جانوروں کو اپنی جان پر ریسکیو کر چکا ہوں۔‘ 
سید امتیاز شیزاری نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس جانوروں کو ریسکیو کرنے کا مناسب سامان اور آلات نہیں ہیں۔ دوسرے ملکوں میں ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے تو ہیلی کاپٹر تک آ جاتے ہیں لیکن یہاں کوئی اچھا انتظام نہیں ہے۔‘ 

وائلڈ لائف ہیڈ واچر سید امتیاز شیرازی نے کہا کہ ’ہمارے پاس جانوروں کو ریسکیو کرنے کا مناسب سامان اور آلات نہیں ہیں‘ (فوٹو بشکریہ: ثروت کیانی)

جبی سیداں ہی کے رہائشی سید متین بخاری محکمہ وائلڈ لائف میں ہیڈ گارڈ ہیں، ان کا اندازہ بھی یہی ہے کہ شام کے وقت مادہ تیندوا آ کر اپنے بچے واپس لے گئی ہو گی۔ ہم آج (جمعے کو) وہاں گئے تھے۔ ہمیں تیندوے کے پنجوں کے نشانات وہاں ملے ہیں۔‘
متین بخاری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میرے خیال میں اس مادہ تیندوا نے پہلی بار بچوں کو جنم دیا اس لیے اس نے آبادی کے قریبی مقام کا انتخاب کیا۔ اگر وہ تجربہ کار مادہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔‘ 

’اگر بچے غائب ہوتے تو مادہ تیندوا ضرور آتی‘ 

عبدالستار بخاری بھی اس گاؤں کے قریب رہتے ہیں۔ اردو نیوز نے ان سے پوچھا کہ اس بات کیسے یقین کر لیا جائے کہ ان نوزائیدہ بچوں کو ان کی ماں ہی لے کر گئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بارے میں کچھ حتمی تو نہیں کہہ سکتے لیکن شواہد اور ماضی کے تجربات یہی بتاتے ہیں کہ انہیں ان کی ماں یا باپ میں سے کوئی لے گیا ہو گا۔‘ 
’اگر تیندوے کے بچوں کو نقصان پہنچا ہوتا تو وہ غصے میں گاؤں میں جانوروں کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بچے اپنی ماں ہی کے ساتھ گئے ہیں۔‘ 
دوسری جانب وائلڈ لائف ایکٹوسٹ راجہ ثروت کیانی ہیڈ واچر سید امتیاز شیرازی کے بیان کی روشنی میں سوال اٹھاتے ہیں کہ ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر وہ بچے کسی نے غائب نہیں کیے تھے تو پھر مادہ تندوا رات پونے 10بجے اسی غیر آباد گھر کے قریب کیوں واپس آئی۔‘ 

اس معاملے میں کسی بدنیتی کی اطلاع نہیں: سیکریٹری وائلڈ لائف

اردو نیوز نے اس واقعے کے بارے مقامی افراد سے معلومات جمع کرنے کے بعد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے سیکریٹری خواجہ نعیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ابھی تک جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق مادہ تیندوا اپنے بچوں کو ساتھ لے گئی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کسی غیرقانونی سرگرمی کا پتا نہیں چلا تاہم حویلی کی ضلعی انتظامیہ کو اس معاملے کی جانچ کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔‘ 
تیندوے کے بچوں کے ساتھ مقامی افراد دن بھر تصویریں بناتے رہے، کیا ریسکیو اہلکاروں کے پاس کوئی ایسا میکنزم نہیں تھا کہ وہ نوزائیدہ بچوں کو محفوظ مقام پر رکھ سکتے؟ اس سوال کے جواب میں خواجہ نعیم نے کہا کہ ’دیکھیں ہر علاقے میں ہمارے ایک دو واچرز ہوتے ہیں۔ یہ معاملات سائنسی کی بجائے دیسی انداز میں ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو کسی ایسی واقعے کے بعد جمع ہونے سے روکنا مشکل ہوتا ہے۔‘ 
خواجہ نعیم نے مزید بتایا کہ ’ہمارے محکمے کا مقصد ہی ایسی انواع کا تحفظ ہے۔ جنگلی حیات کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔‘

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے سیکریٹری خواجہ نعیم نے بتایا کہ حویلی کی ضلعی انتظامیہ کو اس معاملے کی جانچ کے لیے کہہ دیا گیا ہے (فوٹو: گوگل ارتھ)

واضح رہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے جنگلات میں تیندوے بڑی تعداد پائی جاتے ہیں اور کبھی کبھار جنگلات کے قریبی دیہاتوں میں پالتو جانوروں پر ان کے حملوں کی رپورٹس بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ 
گزشتہ برس آٹھ فروری کو پاکستان کے زیرانتطام کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں آبادی میں گھس آنے والے ایک تیندوے کو شہریوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ 
ہٹیاں بالا کے گاؤں سرائی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد مقامی شہریوں نے دعویٰ کہا تھا کہ ’تیندوے نے ’حملہ کر کے‘ تین افراد کو زخمی کیا ہے۔‘ 
تاہم ضلع حویلی کے گاؤں میں غیرآباد گھر میں تیندوے کے بچوں کا جنم لینا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
یہ تین ننھے تیندوے اپنی ماں کے ساتھ محفوظ مقام پر چلے گئے ہیں یا پھر کہیں اور۔ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ 

شیئر: