Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتے والوں کے سامنے بن سنور کر بیٹھنے کی روایت، لڑکیوں کیلئے سوہان روح

نہ جانے لوگ لڑکیوں میں کیا تلاش کرتے ہیں، اچھے بھلے رشتے کو انکار کردیتے ہیں
**عنبرین فیض احمد ۔ کراچی**
رمشا بیٹی شام کو کچھ گھر میںمہمان آرہے ہیں تم تیار ہوجانا۔ ساتھ کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی تیار کرلینا ۔ لڑکے والے تمہیں دیکھنے آرہے ہیں۔ امی جان نے حسب معمول اطلاع دی۔ وہ نجانے کیا کرنے میں مصروف تھی ، امی کی باتیں سنتے ہی وہ سیخ پا ہوگئی۔ وہ بولی امی اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ پھر سے کسی کے سامنے بن سنور کر بیٹھنا ہوگا،پلیز امی !اب بس کردیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ رشتے والوں کے سامنے بن سنور کر بیٹھنے کی روایت لڑکیوں کے لئے سوہان روح ہے۔ نجانے یہ سلسلہ کب متروک ہوگا؟ بس کردیں ،کیا مطلب ہے تمہارا؟ امی نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔ کچھ نہیں امی جان! یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے چلی گئی کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر اس نے اپنی زبان کھولی تو زمین و آسمان ایک ہوجائے گا۔ وہ کئی مرتبہ اسی طرح بن سنور کر اسے دیکھنے آنے والوں کے سامنے آتی رہی اور لوگوں کا انکار بھی سنتی رہی۔ رمشا کی سب بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں ، ایک وہی باقی رہ گئی تھی۔ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نہ جانے لوگ لڑکیوں میں کیا تلاش کرتے ہیں۔
اچھے بھلے رشتے کو انکار کردیتے ہیں اگر سب کچھ ٹھیک بھی مل جائے تب بھی کوئی پھوپھی، کوئی تائی، کوئی ماسی نقص نکال ہی دیتی ہے۔ کبھی بہانہ بنادیا جاتا ہے کہ خاندان سمجھ میں نہیں آیا، کبھی کوئی اور بات بنا دی جاتی ہے۔ رمشا کا ایک ہی بھائی تھا۔ لوگ اکلوتے لڑکے کے پیچھے توایسے بھاگتے ہیں جیسے کوئی چھوٹتی ٹرین ہو۔ رمشا کے بھائی کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا، اس کے والدین کیلئے محال تھا کہ وہ اپنی بہو بنانے کے لئے کس لڑکی کے حق میں فیصلہ دیں۔کسی نہ کسی طرح بھائی کی منگی ہوگئی۔ اب رہی رمشا کی بات ، اس کی وجہ سے امی کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں۔
بیسیوں رشتے آئے لیکن کوئی بات نہیں بن رہی تھی۔ سب آکر یہی کہتے کہ اتنے چھوٹے قد والی سے کون شادی کرے گا ۔5 فٹ3 انچ قد کو بھی کہا جاتا کہ قد چھوٹا ہے۔ لڑکا چاہے موٹا توند والا ہو، چاہے گنجا اور کالاہو۔ لڑکے والے اپنی پسند کا پیمانہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ رمشا ابھی کمرے میں تیار ہی ہورہی تھی کہ ڈور بیل کی آواز آئی۔ وہ سمجھ گئی کہ مہمان آگئے ہیں، اب اسے ایک بار پھر مسترد ہونے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرا دی کہ جہاں اتنی بار مسترد کی جا چکی ہوں، وہا ں ایک بار اور سہی۔ پھر وہ اپنے بلائے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ کچھ ہی دیر میں امی جان کی آواز آئے گی۔ پھر یہی ہوا اور وہ کمرے میں داخل ہوگئی جہاں تین، چار خواتین بے چینی سے اسی کا انتظار کررہی تھیں۔ ان کے درمیان ایک سانولے سے صاحب بھی تشریف فرما تھے جو تواضع کیلئے رکھے لوازمات سے برابر انصاف فرما رہے تھے۔
رمشا کو ان صاحب کے سامنے بیٹھنے کے لئے کہا گیا۔ خواتین کسی ایکسرے مشین کی مانند رمشا کا بھرپور جائزہ لے رہی تھیں۔ وہ سٹپٹا گئی اور اپنی امی کی جانب دیکھنے لگی۔ ایک خاتون نے بڑے فخر سے انکشاف کیا کہ ان کا بھائی تو ہیرا ہے ہیرا، کئی رشتے تو خاندان میں ہی ہیں ،باہر بھی رشتوں کی کمی نہیں لیکن ہمیں کوئی لڑکی پسند نہیں آئی۔ دوسری خاتون بولیں کہ یہ بھائی، ہم سب بہنوں کا بڑا لاڈلہ ہے، اسے ہم نے ہتھیلی کا پھوڑا بنا کر رکھا ہوا ہے۔ سب خواتین بھائی نامہ کھول کر بیٹھ گئیں۔ امی جان ان کی ہر بات پر مسکرا مسکرا کر گردن ہلا رہی تھیں۔ پھر ایک خاتون فرمانے لگیں کہ آپ کی بیٹی کا رنگ ہی تو گورا ہے۔پتلی دبلی بہت ہے ۔بہن برا نہ ماننا، ذرا کھلایا پلایا کریں جس پر تمام خواتین قہقہہ مار کر ہنسنے لگیں۔ رمشا نے اتنی عزت افزائی کے بعد وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو امی کا اترا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ انہوں نے بھی انکار کردیا تھا۔ چند دن بعد پھر کچھ لوگ آئے رشتے کیلئے مگر آج ایسا نہیں ہوا۔ صرف دو ہی خواتین تھیں ، ایک ماں اور دوسری لڑکے کی بہن۔ انہوں نے نہ توتحقیقاتی نظروں سے اسے گھورا، نہ ہی الٹے سیدھے سوالات کئے۔ دونوں خواتین بھی قبول صورت تھیں اور طبعاًسلجھی ہوئی معلوم ہورہی تھیں۔ انہوں نے بس اتنا پوچھاکہ بیٹی، آپ کا نام کیا ہے؟ پھر جاتے جاتے امی سے کہا کہ آج سے یہ ہماری بیٹی ہے۔ آپ لوگ آکر شادی کی تاریخ طے کرلیں۔ وہ حیران تھی کہ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ باقی ہیں جو صرف سیرت دیکھتے ہیں۔ چند ماہ بعد اس کی شادی ہوگئی۔ سچ ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔

شیئر: