Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کی وطن واپسی پر خاموشی سیاسی حکمت عملی یا کچھ اور؟

مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی خاموش ہے اورکسی سیاسی سرگرمی میں نظر نہیں آ رہی ہیں: فائل فوٹو
حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز متحدہ عرب امارات میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد ملک واپس آ چکی ہیں۔
پچھلا ایک مہینہ مڈل ایسٹ پاکستانی سیاست کا مرکز اور منبہ رہا ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرادری کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ ہو یا مسلم لیگ ن کی کے عہدیدرارن کی نواز شریف سے لمبی ملاقاتیں مریم نواز ان ساری سرگرمیوں کا حصہ رہی ہیں۔
تاہم ن لیگ کی طرف سے ان سیاسی سرگرمیوں پر کوئی باضابطہ بات نہیں کی گئی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ نشر اور شائع ہوتی رہی ہیں کہ ملکی سیاست کے بڑے فیصلے دبئی میں ہو رہے ہیں۔ تاہم کسی بھی سیاسی دھڑے کی جانب سے اس بات کی تردید نہیں کی گئی۔ اور نہ ہی ایسے فیصلوں کی بھنک باضابطہ طور پرمیڈیا تک پہنچی ہے۔
ایسے میں عام تاثر تھا کہ مریم نواز کی واپسی پر وہ نہ صرف سیاسی طور پر متحرک نظر آئیں گی بلکہ امارات میں ہونے والی سیاسی بیٹھکوں کی جھلک بھی ان کے بیانات سے دکھائی دے گی۔ تاہم صورت حال اس کے برعکس ہے ان کا ٹویٹر اکاونٹ بھی خاموش ہے اور وہ خود بھی کسی سیاسی محاظ پر نظر نہیں آ رہی ہیں۔
مریم نواز کی خاموشی نئی نہیں
ایک مہینے کے بعد وطن واپسی اور مکمل خاموشی مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی ہے یا کچھ اور؟ اس سوال کا جواب ان کے پولیٹیکل سیکرٹری ذیشان ملک تو ایسے دے رہے ہیں کہ ’مریم نواز بہت جلد متحرک ہوں گی اب آگے الیکشن آرہا ہے سب سیاسی جماعتیں میدان میں ہوں گی۔ ابھی عاشورہ بھی قریب ہے جبکہ نگران حکومت بنائے جانے کا مرحلہ چل رہا ہے۔‘
تاہم سیاسی مبصرین کے خیال میں مریم نواز کی خاموشی ہمیشہ حکمت عملی کے تحت ہوتی ہے اور اس میں کہیں نہ کہیں آنے والے دنوں کے سیاسی صورت حال کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے۔ مریم نواز پہلی دفعہ جب 2017 میں اپنی والدہ کلثوم نواز کی انتخابی مہم میں عملی سیاست میں داخل ہوئیں تو یہ انتخاب جیتنے کے بعد وہ کافی عرصہ خاموش رہیں۔
اس کے بعد انہیں ایون فیلڈ کیس میں سزا سنائی گئی جیل سے رہائی کے بعد بھی انہوں نے سیاسی معاملات پر چپ سادھے رکھی۔
سال 2019 میں انہوں نے اپنے والد کے لیے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تو انہیں نیب نے ایک پھر گرفتار کر لیا۔ اس کیس میں ضمانت ملنے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ایک لمبہ عرصہ خاموش رہیں۔
’نواز شریف واپسی کا دارومدار بھی نگراں سیٹ اپ پر‘

مریم نواز تبھی بولیں گی جب کسی بات کی ان کو سیاسی طور پر ضرورت ہوئی:  مجیب الرحمن شامی

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دیکھا جائے تو اس وقت شہباز شریف نے غیر اعلانیہ الیکشن مہم شروع کر رکھی ہے۔ لیپ ٹاپ ہوں یا منصوبوں کے افتتاح یہ نئی ترقیاتی سکیمیں یہ سب الیکشن مہم کی اقسام ہی ہیں جبکہ مریم نواز خاموش ہیں۔ اس کا سادہ مطلب ہے کہ ابھی تک نگراں حکومت کے حوالے سے صورت حال واضع نہیں ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئےکہا کہ ’مریم نواز اس وقت متحرک ہوں گی جب بات الیکشن کی طرف جاتی ہوئی نظر آئے گی۔ حیران کن طور پر سیاسی جماعتیں الیکشن میں کم دلچسپی لے رہی ہیں اور ان کی نظریں نگراں حکومت اور اس کے اختیارات پر ہے جو کہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ نواز شریف واپسی کا دارومدار بھی نگراں سیٹ اپ پر ہے اور مریم نواز کے متحرک ہونے کو بھی اسی عدسے سے دیکھا جائے گا۔‘
’ اگر الیکشن قریب ہیں ہی نہیں تو پھر سیاسی تحریک کس بات کی؟ موجودہ حالات میں ایک ہی سیاست ہوسکتی ہے جو شہباز شریف کر رہے ہیں جب تک وہ وزیر اعظم ہیں۔ نگراں حکومت بننے کے بعد نئی بساط بچھے گی۔ اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا۔‘
معروف تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی مریم نواز کی خاموشی کو حکمت عملی سے تعبیر کرتے ہیں ’وہ پارٹی کی چیف آرگنائزر ہیں وہ جب بھی بولیں گی اس سے ان کی جماعت کی پالیسی کی جھلک نظر آئے گی اس لیے وہ تبھی بولیں گی جب کسی بات کی ان کو سیاسی طور پر ضرورت ہوئی۔‘

ایک مہینے کے بعد وطن واپسی اور مکمل خاموشی مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی ہے یا کچھ اور؟: فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیاست کا سارا مرکز و محور اس وقت حکومت کے اختتام اور نئی نگراں حکومت کے گرد گھوم رہا ہے تمام جماعتوں کی فکر اس طرف ہے اور اس میں براہ راست مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہے۔ کیونکہ معاملات بڑوں میں طے ہوں گے اور اس کے لیے مشاورت جاری ہے۔ ہاں اگر نگران حکومت کے قیام پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہوتا تو صورت حال تھوڑی مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس وقت کوشش یہی کی جا رہی ہے جو بھی مشترکہ ہو۔‘
مبصرین پاکستان میں اگلے دو ہفتوں کو پاکستان کے اگلے ہفتوں کو سیاسی طور پر اہم سمجھ رہے ہیں کیونکہ ان دو ہفتوں میں یہ طے ہو جائے گا کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے میدان عمل میں نکلیں گی یا پھر الیکشن کمیشن کے حتمی اعلان کا انتظار کیا جائے گا۔

شیئر: