Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معدنیات سے اُمیدیں، ’فوج سمجھ چکی معیشت اصل میدانِ جنگ ہے‘

آرمی چیف نے ’مِنرل سمٹ‘ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری سرزمین بہت سی معدنیات سے مزیّن ہے۔‘ (فوٹو: شہباز شریف ٹوئٹر)
پاکستان کو سنگین معاشی چینلجز کا سامنا ہے اور ان حالات میں حکومتی حلقوں میں خود انحصاری کی پالیسیوں پر غوروفکر ہو رہا ہے۔ ان دنوں پاکستان کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والے معدنی ذخائر اور ان کے ساتھ جڑے معاشی امکانات پر بات کی جا رہی ہے۔ 
اسی سلسلے میں یکم اگست کو دارالحکومت اسلام آباد میں ’مِنرل سمٹ 2023‘ کے عنوان سے ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں مقامی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ دیگر ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ 
پاکستان میں معدنیات کی نکاسی کا شعبہ وزارت توانائی کے تحت آتا ہے۔ اسی وزارت نے ’مِنرل سمٹ‘ کی میزبانی کی اور اس مقصد عالمی سرمایہ کاروں اور کان کان کنی کی انڈسٹری سے وابستہ اہم کمپنیوں کو اس جانب راغب کرنا بتایا گیا۔ اس تقریب کے لیے ’ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ‘ یعنی مٹی سے ترقی کا سلوگن دیا گیا۔ 
’مٹی کا نہیں بلکہ مٹی سے ترقی کا سفر‘ 
وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے ’مِنرل سمٹ‘ سے ایک دن قبل پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’ہم نے مٹی سے ترقی کے سفر طے کرنا ہے مٹی کا سفر نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو معدنیات اور مٹی ہم بیچیں گے۔ اس سے ملک لاکھوں ڈالر کمائے گا۔ سونا اور تانبا ملک کی تقدیر بدلے گا۔‘ 
اس کے بعد اگلے روز ’مِنرل سمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزارت توانائی کے سکریٹری محمد محمود نے کہا کہ ’پاکستان میں 92 مختلف اقسام کی انتہائی قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ کانیں تین لاکھ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ اسی طرح تانبے اور سونے کے دو بڑے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے جن میں بلوچستان میں ریکوڈک اور سینڈک کے منصوبے شامل ہیں۔ وزارت توانائی کے سکریٹری نے بلوچستان میں لیتھیم اور دیگر معدنیات کی کان کنی میں مصروف کمپنوں کا حوالہ بھی دیا۔ 
انہوں نے بتایا کہ ’کھیوڑہ میں نمک، مسلم باغ میں کرومائیٹ اور چمن میں کوئلے کی کان کنی جاری ہے اور گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اعلیٰ معیار کا لیتھیم پایا جاتا ہے۔‘ 
’مِنرل سمٹ‘ سے کچھ دن قبل پاکستان کے مقامی میڈیا پر شمالی وزیرستان کی بعض سائٹس پر کام کرنے والے کان کنوں اور انجینیئرز کے انٹرویوز نشر ہونا شروع ہوئے تو سوشل میڈیا پر بھی یہ موضوع زیربحث آیا۔ 
پاکستان میں موجود معدنی ذخائر کی مالیت کے حوالے سے مختلف دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے جیالوجیکل سروے آف پاکستان 2023 کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ 

جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں آئرن کے 14 سو ملین ٹن ذخائر موجود ہیں (فوٹو: روئٹرز)

پاکستان میں کتنے معدنی ذخائر ہیں؟ 
جیالوجیکل سروے آف پاکستان 2023 کی اردو نیوز کو دستیاب رپورٹس کے مطابق پاکستان میں چھ کھرب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ 
ان معدنیات میں آئرن 14 سو ملین ٹن، کاپر چھ ہزار ملین ٹن، سونا اعشاریہ 134 ملین ٹن، چاندی 618 ملین ٹن، ٹنگسٹن تین اعشاریہ ایک ملین ٹن، میگنیسائٹ اعشاریہ 597 ملین ٹن، لیڈ زِنک 23 جبکہ کرومائیٹ دو اعشاریہ پانچ ملین ٹن ہیں۔ 
سروے کے مطابق نان مٹیلک معدنیات میں ماربل اور گرینائٹ کی مقدار چار ہزار 298 ملین ٹن، اونیکس دو جبکہ کوئلہ ایک لاکھ 86 ہزار ملین ٹن ہے۔ 
صنعتی استعمال کی معدنیات میں برائٹ، ڈولومائٹ، فیلڈپار، راک سالٹ، فاسفیٹ، سلیکا سینڈ، جپسم اور سوپ سٹون پائے جاتے ہیں۔ ان کی جپسم کی مجموعی مقدار چار ہزار 850 ملین ٹن بتائی گئی ہے۔ 
پاکستان کی حکومتوں کو کافی عرصے سے شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً ملکی وسائل کو بروئے کار لانے سے متعلق بیانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ 
معاشی امور کے ماہر اور تجزیہ کار عمار حبیب خان  کا اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’پاکستان کے پاس موجود منرلز میں کافی زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔ یہاں کوئلے اور کاپر کے بڑے ذخائر ہیں۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ ’کاپر قابل تجدید توانائی کے شعبے کے علاوہ الیکٹرانک کاروں اور سولر پینلز میں استعمال ہوتا ہے۔ مستقل میں دنیا میں کاپر کی قلت ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے بعد دنیا میں کاپر کی ڈیمانڈ بڑھ جائے گی اس لیے ہمیں پوری محنت سے کاپر کی نکاسی کرنی چاہیے۔‘
’بہتر تو یہ ہوگا کہ ہم نا صرف کاپر کی نکاسی کریں بلکہ اس کہ پروسیسنگ یہیں پر کر کے ویلیو ایڈڈ شکل میں اسے ایکسپورٹ کریں۔ اس طرح ہم برآمدات کی مد میں زیادہ سے زیادہ ریونیو پیدا کر سکیں گے۔‘

پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت نے بعض ایسے منصوبوں پر کام شروع کیا جن میں انہیں فوج کی مدد بھی حاصل ہے (فوٹو: شہباز شریف ٹوئٹر)

معدنیات کی نکاسی سے متعلق فوج کے کردار کے حوالے سے عمار حبیب خان کا کہنا تھا کہ ’معدنیات نکالنا فوج کا کام ہے اور نہ ہی سویلین حکومت کا کام ۔ یہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں اور انٹرپرائزز کا کام ہے۔ ایسے انٹرنیشنل انویسٹرز یہ کام کریں گے جو اس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔‘
’حکومت اور اس کے ماتحت محکموں کا کام یہ ہے کہ وہ یہاں ایسا ماحول پیدا کریں جس کی بنیاد پر سرمایہ کار یہاں آئیں۔ اس چیز کے لیے سول اور ملٹری حکومت کا مل کر کام کرنا ضروری ہے۔‘
عمار حبیب کا کہنا ہے کہ ’ یہ بالکل درست ہے کہ جہاں جہاں ہمارے منرلز کے ذخائر ہیں، وہاں سکیورٹی کے ایشوز بھی ہیں۔ اگر اس پہلو کو بہتر بنایا جائے تو بلاشبہ یہاں سرمایہ کار آ سکتے ہیں۔ اور کام کام فوج کر سکتی ہے۔‘
معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں فوج کی دلچسپی 
پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت نے بعض ایسے منصوبوں پر کام شروع کیا جن میں انہیں فوج کی مدد بھی حاصل ہے۔ خاص طور پر زراعت اور معدنیات کی نکاسی کے شعبوں میں ان دنوں فوج یا اس سے منسلک ذیلی محکمے متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ 
کچھ دن قبل حکومت نے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) بھی قائم کی ہے جس کے بارے میں وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر مختلف تقریبات میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔ 
آرمی چیف نے یکم اگست کو ’مِنرل سمٹ‘ میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہماری سرزمین بہت سی معدنیات سے مزیّن ہے اور اس صلاحیت کو مکمل طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان میں چھُپے خزانوں کی دریافت میں اپنا کردار ادا کریں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے سرمایہ کار دوست نظام کو یقینی بنائیں گے جس میں آسان شرائط اور غیر ضروری التواء سے بچا سکے۔‘ 
حکومت کی جانب  سے تأثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ملک کو مشکلات کی گرداب سے نکالنے کے لیے فوج کا مکمل تعاون اسے حاصل ہے۔ 
 

سروے کے مطابق نان مٹیلک معدنیات میں ماربل اور گرینائٹ کی مقدار چار ہزار 298 ملین ٹن ہے (فوٹو: ٹریول ٹریلز)

سوال یہ ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت زراعت اور معدنیات کے شعبوں میں باہمی تعاون سے کیا نتائج حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے میں کتنی مدت درکار ہو گی؟ 
ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے پرامید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فوج کی مخصوص شعبوں کی کارگردگی بڑھانے میں دلچسپی خوش آئند ہے۔ 
ڈاکٹر اشفاق حسن نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں مِنرلز (معدنیات) کا بہت پوٹینشل موجود ہے۔ جن ملکوں کے پاس معدنی وسائل کی بہتات ہے، وہ امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور روس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔‘ 
’سویلین قیادت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس مِنرلز تو بہت ہیں لیکن وہ زمین کے اندر ہیں اور ہم اسی بات خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے ذخائر ہیں۔ اب جب تک وہ زمین سے نکالے نہیں جائیں گے تو کیا فرق پڑے گا۔ یہ تو ’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘ والی بات ہو گئی۔‘ 
زراعت اور منرلز کے شعبوں میں سول حکومت کے ساتھ فوج کے تعاون سے متعلق سوال پر ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا  کہ ’دیکھیے اب سِویلین سیاسی قیادت کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، ان کا معیشت سے کیا تعلق۔‘
’فوج نے اب سمجھ لیا ہے کہ معیشت ہی اصل میدانِ جنگ ہے اور اسی لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے۔ اور اسے بالکل ویسے ہی چلائے جائے گا جیسے کورونا وبا کے دوران این سی او سی کو چلایا گیا۔‘ 
معدنیات کی نکاسی سے متعلق فوج کے کردار کے حوالے سے عمار حبیب نے کہا کہ ’معدنیات نکالنا فوج کا کام ہے اور نہ ہی سویلین حکومت کا کام ۔ یہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں اور انٹرپرائزز کا کام ہے۔ ایسے انٹرنیشنل انویسٹرز یہ کام کریں گے جو اس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ ’اگر بورڈ آف انویسٹمنٹ پر چھوڑ دیا جائے تو یہاں کوئی بھی سرمایہ کار نہیں آئے گا۔‘ (فوٹو: بورڈ آف انویسٹمنٹ)

’بورڈ آف انویسٹمنٹ فضول ادارہ بن چکا‘ 
ڈاکٹر اشفاق حسن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے تحت زراعت، توانائی، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں کو فوکس کیا گیا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا بورڈ آف انویسٹمنٹ ایک فضول ادارہ بن چکا ہے۔ اگر ان پر چھوڑ دیا جائے تو یہاں کوئی بھی سرمایہ کار نہیں آئے گا۔‘ 
’سرمایہ کاروں کا شکایت رہتی ہے کہ پاکستان میں سویلین بیوروکریسی معاملات کو التواء میں ڈال دیتی ہے۔ اس لیے اب ان کو معاملات پیچھے رہ کر فوج چلائے گی۔‘ 
ان منصوبوں کے دیرپا اور مستحکم ہونے سے متعلق سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ ’امید ہے کہ دیرپا منصوبے ہوں گے کیونکہ آرمی چیف نے بار بار اپنی تقریروں میں اس عزم کا اظہار کیا ہے۔‘ 
’سیاسی حکومتوں میں ان شعبوں کو ڈیل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اب ملک تو سب کا ہے۔ اگر سویلین میں صلاحیت نہیں تو فوج یہ کام کرے گی جیسا کہ کئی ملکوں جیسا کہ انڈونیشیا اور چین میں ہوتا ہے۔‘ 

شیئر: