Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا پریمی جوڑا جس کے ہاتھ خون سے رنگے مگر پیلے نہ ہو سکے

کشمالہ کی دوسری شادی لاہور کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہوئی تھی(فائل فوٹو: فری پکس)
لاہور کے علاقے چوہنگ میں رمشا نامی خاتون اور اس کے محلے دار شرافت کے قتل میں طریقہ واردات میں مماثلت، حالات و واقعات اور خاص طور پر ان دونوں کے شریک حیات کی آشنائی نے پولیس کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان دونوں وارداتوں کی کڑیاں کسی ایک جگہ جا ملتی ہیں اور دونوں کے محرکات مشترک ہیں۔
لہٰذا تفتیش کا رخ دو کرداروں کی طرف موڑ دیا گیا جن کے نام کشمالہ اور عثمان ہیں۔ حالانکہ پولیس اس بات سے قطعاً لاعلم تھی کہ قتل کے ان دونوں واقعات کے بعد بھی کشمالہ اور عثمان کے جرم کا سلسلہ آگے بڑھنے جا رہا ہے۔

کشمالہ اور عثمان کون ہیں، ان کا تعلق کیا تھا؟

لاہور کے علاقے چوہنگ کے رہائشی عثمان اور کشمالہ ایک دوسرے کو بچپن سے پسند کرتے تھے لیکن دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک نہ ہو سکے۔
عثمان کے گھر والوں نے ایک سال نو ماہ قبل اس کی شادی کر دی جس کے ٹھیک چھ ماہ بعد کشمالہ کے ہاتھ بھی پیلے ہو گئے۔
لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ دونوں اپنے ہاتھ بہت جلد اپنے اپنے شریک حیات کے خون سے رنگنے والے ہیں۔
شادی کے بعد بھی دونوں کے درمیان موبائل فون پر رابطہ برقرار رہا اور کسی طرح ایک ہونے کی خواہش کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کرتے رہے۔
پھر ایک دن عثمان نے کشمالہ کو فون کیا اور اپنی بیوی کو قتل کرنے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کشمالہ کے شوہر شرافت کو بھی راستے سے ہٹانے کی ترغیب دی۔

شریک حیات کے قتل کی منصوبہ بندی کو عملی شکل دے دی گئی

پولیس کے مطابق عثمان نے اپنی شادی کے چار ماہ بعد اپنی بیوی رمشا کو نیند آور گولیاں کھلا کر منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کیا اور مقتولہ کو واش روم میں رکھ کر اس کے جسم پر صابن لگایا اور سر پر لوہے کے راڈ سے وار کیا تاکہ رمشا کے قتل کو واش روم میں اچانک گر کر ہلاکت کا رنگ دے سکے۔
رمشا کو موت کے گھاٹ اتارنے کے چند دن بعد کشمالہ کے شوہر شرافت کی باری تھی۔ جس کے لیے ملزم عثمان نے تقریباً وہی طریقہ واردات اختیار کیا۔ کشمالہ کے ذریعے شرافت کو نیند کی گولیاں دیں اور پھر منہ پر تکیہ رکھ کر اس کو بھی قتل کر دیا اور لاش رات کے اندھیرے میں خالی پلاٹ میں پھینک دی۔

دوہرے قتل کے باوجود ملزمان کے ملاپ کی کوشش ناکام رہی

 دونوں اپنے اپنے شریک حیات کو قتل کرنے کے بعد بھی ایک نہ ہوسکے۔ ایک بار پھر گھر والوں نے دباؤ ڈال کر عثمان کی شادی کر دی جس کے ایک ماہ بعد کشمالہ کی بھی دوسری شادی ہو گئی۔
لیکن دونوں کے سر پہ سوار ایک دوسرے سے شادی کا بھوت اب بھی نہ اترا تھا۔ کشمالہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ عثمان نے پہلے بھی گھر والوں کے دباؤ پر شادی کی تھی اور اب اس کے شوہر کو قتل کروانے کے بعد بھی آزادانہ فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

ماہرانہ منصوبہ بندی اور پولیس کے شک کا دائرہ

اس دوران پولیس رمشا اور شرافت کے قتل میں مماثلت ہونے پر تفتیش جاری رکھے ہوئے تھی اور دوہرے قتل میں ملوث جوڑا تفتیش کاروں کی نظر میں آچکا تھا لیکن کمی تھی ٹھوس شواہد کی جن کی بناء پر پولیس دونوں کو گرفتار کرتی یا حراست میں لے کر تفتیش کی جاتی۔

پولیس نے عثمان کے اغواء کی تفتیش شروع کی تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا(فائل فوٹو: فری پکس)

پولیس کے انویسٹی گیشن ونگ کے مطابق قتل کی دونوں وارداتوں کی منصوبہ بندی انتہائی حاضر دماغی سے کی گئی تھی۔ قاتل نے دونوں وارداتوں میں اپنے زیادہ سے زیادہ شواہد مٹانے اور قتل کو حادثہ قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ لیکن طریقہ واردات میں مماثلت، دونوں واقعات میں محض چند دن کا وقفہ  اور مقتولین کے گھروں میں مختصر فاصلے سمیت حالات و واقعات نے عثمان اور کشمالہ کو شک کے دائرے میں لا کھڑا کیا تھا۔

دوہرے قتل کا نیا منصوبہ اور سی آئی اے کو تفتیش کی منتقلی

اپنی پہلی بیوی اور کشمالہ کے ساتھ مل کر اس کے پہلے شوہر کے قتل کے بعد دونوں کی شادیاں دوبارہ ہوئیں اور دونوں نے ایک بار پھر اپنے اپنے شریک حیات کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن اس بار طریقہ واردات میں تبدیلی کی گئی کیونکہ دونوں کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ پولیس انہیں مشکوک سمجھ کر ان پر نظر رکھے ہوئے ہو گی۔
کشمالہ کی دوسری شادی لاہور کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہوئی تھی۔
ملزم عثمان اس بار بھی کچھ عرصہ کشمالہ کے شوہر کے کوائف اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا رہا لیکن ایسا کوئی موقع نہ مل سکا کہ کشمالہ کے دوسرے شوہر کو کہیں راستے میں قتل کیا جاسکے یا اس کے گھر کے اندر داخل ہوکر واردات کی جائے۔
پھر دونوں نے قتل کی یہ واردات شہر سے دور کسی سیرگاہ پر جا کر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کشمالہ نے اپنے دوسرے شوہر کو ہنی مون کے لیے راضی کیا اور دونوں شادی کے بعد کچھ دن گزارنے مری چلے گئے۔
اسی دوران عثمان نے اپنے اغواء کا منصوبہ بنا لیا تاکہ قتل کی اس تیسری واردات کے بعد یہ ثابت کیا جاسکے کہ وقوعہ سے پہلے نامعلوم افراد نے اسے اغواء کرلیا تھا۔
پولیس نے عثمان کے اغواء کی تفتیش شروع کی تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا۔
ڈی ایس پی سی آئی اے میاں انجم توقیر نے اردو نیوز کے نمائندے ادیب یوسفزئی کو بتایا کہ ’لڑکی نے منصوبہ بنایا کہ وہ شوہر کو مری لے جائے گی جہاں عثمان آکر اس کے شوہر کو دھکا دے کر مار دے گا۔‘
’منصوبے کے حوالے سے دونوں رابطے میں رہے۔ لڑکا لڑکی سے پہلے مری پہنچا اور اپنا نمبر بند کر دیا۔ گھروالے پریشان ہوئے اور پولیس کو گمشدگی کی اطلاع دی۔‘
چونکہ اس بار تفتیش سی آئی اے پولیس کو منتقل ہو چکی تھی اس لیے قتل کی سابقہ دو وارداتوں کے تناظر میں عثمان کے اغواء کی اس واردات کی تفتیش کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کی موبائل فون کالز کا ریکارڈ حاصل کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ عثمان کا موبائل فون پر مسلسل رابطہ کشمالہ کے ساتھ جاری ہے۔
سی آئی اے پولیس کے تفتیشی آفیسر بنیامین نے اردو نیوز کو بتایا کہ کشمالہ اور عثمان کے موبائل فون کی لوکیشنز لے کر چھاپہ مار کارروائی کی گئی اور دونوں کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس تفتیش کے دوران عثمان اور کشمالہ کا اعتراف جرم

پولیس کی  تفتیش کے دوران عثمان نے بتایا کہ کشمالہ کے دوسرے شوہر کو مری لے جا کر پہاڑی سے نیچے پھینکنے کا منصوبہ تھا تاکہ قتل کی اس واردات کو بھی حادثہ قرار دیا جا سکے۔
کشمالہ نے بھی پولیس کے سامنے اپنے شوہر شرافت کے قتل میں اپنے آشنا عثمان کی معاونت کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول شرافت کو نیند کی گولیاں اس نے خود دیں اور لاش ٹھکانے لگانے میں بھی عثمان کی مدد کی تھی۔ جس کے بعد دوسرے شوہر کو بھی قتل کروانے کے منصوبہ پر بھی عمل درآمد کرنے جا رہی تھی۔

شریک حیات سے اختلافات اور ناپسندیدگی پر قتل کی وارداتیں

لاہور پولیس کے انویسٹی گیشن ونگ کے مطابق رواں سال قتل کی چار ایسی وارداتوں کی تفتیش مکمل کی گئی جن میں براہ راست قاتل مقتول کی بیوی نکلی یا قتل میں معاونت کرتی رہی۔
شاہدرہ میں مریم نامی خاتون نے شوہر سے اختلافات پر سابق دوست کے ساتھ مل کر اپنے شوہر دانش کو قتل کروا دیا۔

ڈیفنس اور ملت پارک میں بھی اسی نوعیت کی دو وارداتیں ہوئیں جن کی تفتیش میں شوہر کی قاتل بیوی نکلی (فوٹو: لاہور پولیس)

ساندہ میں خاتون صائمہ نے بھی کزن سے شادی نہ ہونے پر اپنے شوہر کو فائرنگ کرکے قتل کروایا۔
ڈیفنس اور ملت پارک میں بھی اسی نوعیت کی دو وارداتیں ہوئیں جن کی تفتیش میں شوہر کی قاتل بیوی نکلی اور وجہ محض ازدواجی اختلافات یا ناپسندیدہ افراد سے شادی سامنے آئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان تمام مقدمات کی تفتیش مکمل ہونے پر قتل کی وجوہات کو حتمی اور خواتین کو ملزمہ قرار دیا جا چکا ہے اور ان تمام کیسز کے چالان عدالتوں میں جمع کروا کے ٹرائل شروع کروایا جا چکا ہے جبکہ متعدد ایسے کیسز ابھی زیر تفتیش ہیں جن میں شوہر یا بیوی کو اپنے شریک حیات کے قتل میں پرائم سسپیکٹ تصور کیا جا رہا ہے اور ان سے ابھی تفتیش جاری ہے۔

شوہر اور بیوی کے اختلافات یا ناپسندیدگی پر قتل کیوں؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہرہ رباب کے مطابق رشتوں میں اعتماد کا فقدان اور معاشرتی بے راہ روی ایسے واقعات میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔
’معاشرے میں علیحدگی یا طلاق کے لفظ کو قابل قبول نہ سمجھا جانا بھی اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ طلاق کے داغ سے بچنے کے لیے لوگ قتل جیسے سنگین جرم کرکے اس کو چھپانا علیحدگی اختیار کر لیتے سے بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ازدواجی زندگی محض ایک ساتھ رہنے سے زیادہ جذباتی ملاپ کا نام بھی ہے جہاں اس کا فقدان ہو وہاں شوہر یا بیوی ایک دوسرے کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے سے بیزار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر طاہرہ رباب کے مطابق ’بعض کیسز میں نفسیاتی دباؤ یا شریک حیات کی جانب سے ناروا سلوک کی صورت میں پیدا ہونے والا خلا کوئی اور پورا کر دے تو کمزور نفسیات کے مالک افراد قتل جیسے جرائم کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔‘
’لیکن اس کے لیے قتل کے مرتکب افراد کے باقاعدہ تواتر سے کیے جانے والے انٹرویو اور مشاہدے کی صورت میں ذہنی بیماری کی تشخیص ممکن ہے۔ کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے سے جذباتی طور پر جڑا ہونا بے حد ضروری ہے۔ جبکہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے طلاق یا علیحدگی کو معاشرے میں قبول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوبت قتل یا کسی جرم کے ارتکاب تک نہ جائے۔‘

شیئر: