Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحت ، خوشی ، اطمینان، سب میسر ہے تو پھرکیا چاہئے

مصیبت کے وقت ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں پر نظر رکھیں، اپنی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا
* * * عنبرین فیض احمد۔ ریاض* * *
عینی بیٹا کیا کررہی ہو؟ دیکھو تو لگتا ہے کافی تیز بارش ہونے والی ہے، شام سے گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، جلدی سے چھت سے کپڑے سمیٹ لو ، پھر آٹا وغیرہ گوندھ کر روٹی ڈال دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بجلی چلی جائے ۔ ’’اوہو امی جان! کبھی تو اپنے احکامات میںکامہ، فل اسٹاپ وغیرہ بھی ا ستعمال کرلیا کریں۔ سب کچھ کررہی ہوں، ذرا دم لینے دیں۔‘‘ نہیں نہیں بیٹا آسمان تو دیکھو کیسا سیاہ ہورہا ہے، دیکھنا تھوڑی دیر میں بوندا باندی شروع ہوجائے گی۔ارے بیٹا کہیں ایسا نہ ہو تمہارے باپ اور بھائی دفتر سے گھر آجائیں اور کھانا ہی تیار نہ ہو۔ مغرب کی نماز کا وقت بھی ہوچلا ہے۔ دیکھو تو بارش تیز ہوتی جارہی ہے۔ جاؤ جاکر صحن سے پلنگ وغیرہ اٹھا کر کمرے میں رکھ آؤ اور بستر بھی کمرے میں ڈال دو ۔ موم بتی ڈھونڈ کر ماچس کے ساتھ رکھنا، بجلی جھپکی لے چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت چلی جائے گی۔ گھر کے تمام دروازوں کو بھی دیکھ لو۔ ’’ جی امی جان، بس کریں ناں۔آپ ہر وقت حکم فرماتی رہتی ہیں، مجھے معلوم ہے کیا کرنا ہے۔ کھانا دھیمی آنچ پر رکھ دوں تاکہ وہ گرم ہوجائے۔
پانی کی موٹر چلا دوں تاکہ ابا جان اور بھائی کو ہاتھ منہ دھوتے وقت پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جب بھی بارش آنے والی ہوتی، عینی اکثر یہی سوچتی کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے ہم جیسے لوئر مڈل کلاس لوگوں کی ،ایک تو ایسے لوگوں کی زندگی میں ویسے ہی خوشیاں مشکل سے آتی ہیں ۔ کبھی بارش ہوجائے، جو اچھی لگتی ہے تواس میں بھی ہر وقت خوف رہتا ہے کہ کہیں بجلی نہ چلی جائے، کمرے کی چھت نہ ٹپکنے لگے۔ ابا جی خیریت سے گھر پہنچ جائیں، رات بھر مچھرنہ کاٹتے رہیں۔ کچھ نہیں تو سارا دن صحن سے پانی خشک کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ بارش ختم ہوجائے تو ہفتوں گلی میں پانی کھڑا رہتا ہے جس کے بعد کیچڑ سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔ گندگی اور بدبوکے باعث گھر میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی غریبوں کی زندگی ہے۔ ہمارے ملک میں تو ایسا لگتا ہے کہ بارش بھی امیروں کیلئے ہوتی ہے جو برسات میںخوشیاں مناتے ہیں، موسم کو باقاعدہ انجوائے کرتے ہیں۔
بارش کے گیت گاتے ہیں، پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ سہیلیاں مل کر ہلا گلا کرتی ہیں ۔ ہمیں دیکھئے، بہت ہی عیش کیا تو دال بھری روٹی پکا لی، پکوڑے تل لئے اور خوش ہو گئے کہ ہم نے برسات منا لی۔ عینی صحن میں برستی موسلادھار بارش دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اندر کمرے سے امی جان نہ جانے کب آواز دے دیں کہ بجلی چلی گئی ہے اور اس نے موم بتیاں نجانے کہاں رکھ دی ہیں، مل نہیں رہیں۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ قدرت نے بھی کیا نظام بنایا ہے۔ کسی کو اتنی دولت مل جاتی ہے کہ اس کے پاس رکھنے کیلئے جگہ نہیں ہوتی اور کوئی ذرا ذرا سی چیز کیلئے ترستا ہے۔ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ عینی ایسی باتیں اپنی امی سے بھی کیا کرتی تھی مگر اس کی یہ باتیں سن کروہ ناراض ہوجاتی تھیں کہ اور بیٹی سے کہتی تھیں کہ ایسی ناشکری کی باتیں ہرگزنہیں کرتے۔
ہمارے پاس اللہ کریم کا عطا فرمایا ہوا سب کچھ ہے۔ صحت، تندرستی، خوشی اور اطمینان سب میسر ہے، اب اور کیا چاہئے؟ ان کی طرف دیکھو جنہیں صحت جیسی نعمت میسر نہیں، جو بغیر کسی سہارے کے ہل بھی نہیں سکتے۔ ہمارے پاس صحت نہ ہو تو پھر دولت کے انبار لے کر کیا کریں گے؟ عینی نے کہا کہ امی صرف دو دن بارش ہوئی ہے تو دیکھیں کیسے گٹر اُبل رہے ہیں، اب تو چھت بھی ٹپکنے لگی ہے ۔صحن میں برسات کے پانی کے ساتھ گٹر کا پانی بھی داخل ہونے لگا ہے۔ ہم گھر میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ آٹے کا کنستر بھی خالی ہو گیاہے ، ابا جی بھی دفتر نہیں جارہے ۔
گھر میں پیسے بھی نہیں کہ کچھ خرید کرلے آئیں۔ عینی کی امی نے اس سے کہا کہ بیٹی! مصیبت کے وقت ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں پر نظر رکھا کرو۔ ان کی تکلیف کو محسوس کرنے کی کوشش کروگی تو تمہیں اپنی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا۔ ایسا کرو کہ پڑوس کی خالہ سے 4 آلو اور آٹا مانگ کر لے آؤ تاکہ کچھ تو کھایا جاسکے۔ نہیں امی میں نہیں جاؤنگی کیونکہ خالہ بھی تو ہمارے ہی جیسی ہیں ، وہ کون سی امیر ہیں۔ انہوں نے کوئی خیراتی سینٹر تو نہیں کھول رکھا جو میں ان سے مانگنے چلی جاؤں۔ عینی نے تنگ آکر بڑ بڑاناشروع کردیا۔باہر طوفانی بارش ہورہی تھی اور گھر میں عینی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
جب اس کی امی نے دیکھا کہ عینی، ناشکری کی جانب جا رہی ہے تو انہو ں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہئے اور جو جتنا زیادہ شکر ادا کرتا ہے، اللہ کریم اس کو اتنا ہی زیادہ عطافرماتا ہے ۔ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ جس طرح کسی نے تم کو تنگی سے نکال دیا ہو اور نازک حالات میں تمہارے کام آیا ہو تو ہم اس کے احسان مند ہوتے ہیں اور بار بار اس کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں، ہمیں اللہ کریم کے احسانات پر اُس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے ۔پتا ہے اگر انسان مصیبت میں صبر و تحمل کے دامن کو تھامے رکھے تو اس کے گناہ معاف فرما دیئے جاتے ہیں۔
عینی نے آج پہلی مرتبہ اپنی امی کی باتیں غور سے سنیں اور دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئی او رکہا کہ میں اب کبھی اللہ کریم کی ناشکری نہیں کرونگی۔ اس نے اپنے آپ سے عہد کر لیا کہ اللہ کریم مجھے جس حال میں بھی رکھے گا، میں اس کی شکرگزار رہوں گی۔

شیئر: