Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب کیا ہے؟

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ماضی کے فیصلوں میں اپیل کا حق دینے کی شق کو کالعدم قرار دے دیا ہے (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
ایکٹ کیا تھا؟
ایکٹ میں تھا کہ سماعت کے لیے بینچ صرف چیف جسٹس نہیں بنائیں گے بلکہ چیف جسٹس اپنے دو سینیئر ترین برادر ججوں سے مشورے کے بعد ہی بینچ کا اعلان کریں گے۔ 
یہ قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمان سے منظور کرایا تھا کیونکہ حکومت کواعتراض تھا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مرضی کا بینچ بناتے ہیں جس میں مخصوص ججز شامل ہوتے ہیں۔ 
اس قانون کے خلاف مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 
تاہم بدھ کو سپریم کورٹ نے ان اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس قانون کو درست قرار دے دیا۔ 
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ کے بدھ کے روز دیے گئے فیصلے میں درست قرار دیا گیا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اپیل کے اس حق کو’موثر با ماضی‘ نہیں کیا یعنی سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں ہو سکے گی۔ 
بدھ کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اپنا پہلا فیصلہ سنایا۔
انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’فل کورٹ کے 15 میں 10ججوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھنے کی حمایت جبکہ پانچ ججز نے اس کی مخالفت کی ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی۔
باقی ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کردیں۔ 

عدالتی فیصلے کے بعد ایکٹ کے تحت اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح کو سپریم کورٹ کی اکثریت نے مسترد کر دیا: اشتراوصاف 
ایکٹ کے تحت اب آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات کے لیے بینچ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیا کرے گی۔  
اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شفاف ٹرائل شہریوں کا بنیادی حق ہے۔‘
’جس مقدمے میں اپیل کا حق ہی نہ ہو وہ شفاف کیسے ہوسکتا ہے۔ اوپر سے بینچ بھی مرضی کے ججوں پر مشتمل ہو۔ اس لیے پارلیمنٹ نے دُرست قانون سازی کی تھی۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’ماضی میں چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر کہہ کر مطلق العنان آمر بنا دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے اس اصطلاح کو مسترد کر دیا ہے۔‘  
’کہا جاتا ہے کہ ایک ٹیم کے دو کپتان نہیں ہوتے۔ یہ ٹیم کپتان کی بات نہیں بلکہ یہ تو سلیکشن کا معاملہ ہے کہ کون سا جج کون سا کیس سنے گا۔‘
ان کے مطابق ’سلیکشن کمیٹی ایک فرد پر مشتمل تو نہیں ہوتی۔ ویسے بھی یہ کرکٹ ٹیم نہیں بلکہ انصاف کا معاملہ ہے جسے شفاف بنانا ضروری تھا۔‘  

ماہرین کے مطابق ’پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے صورت حال کا حل نکالا جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع ختم ہوگیا ہے اور قانون لاگو ہو گیا ہے۔  
تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ماضی کے فیصلوں میں اپیل کا حق دینے کی شق کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔  
یہ فیصلہ براہ راست چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق تھا جسے پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین ججوں کے ساتھ تقسیم کر دیا تھا۔ 
سپریم کورٹ نے فیصلے میں پارلیمان کی بالادستی کی توثیق کر دی: حافظ احسان کھوکر  
ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ ’جب 184(3) کے اختیار کو سیاسی معاملات کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو سپریم کورٹ پر سخت تنقید ہوئی۔‘
پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے صورت حال کا حل نکالا جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی۔‘
’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات تقسیم کرنا گوارا کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا اور اس کے قانون سازی کے حق کی توثیق کی ہے۔‘  

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’ماضی کے فیصلوں پر اپیل کے حق کے لیے نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے۔‘
ماضی کے فیصلوں پر اپیل کے حق کے لیے نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے: عرفان قادر 
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے ایکٹ کے  تحت ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی جس کے بعد اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔‘
’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصورعلی شاہ سمیت 7 ججوں نے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی۔
اس کے علاوہ فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسزمیں اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔ 
اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کےفیصلے کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار کے تحت ماضی میں کیے گئے فیصلوں پر اپیل نہیں کی جا سکتی لیکن یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ نواز شریف یا کوئی بھی متاثرہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ نظرثانی کی اپیل بھی فل کورٹ بینچ ہی سنے گا۔  

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد عمر عطا بندیال کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع ختم ہوگیا اور قانون لاگو ہو گیا ہے (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)  

امید ہے کہ اب پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنانے کا دور ختم ہو جائے گا: عمران شفیق ایڈووکیٹ
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اب کوئی چیف جسٹس اپنا من پسند بینچ بنا کر ملک کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکے گا۔‘
’اگر وہ قانون و انصاف کو کُچلنے کی کوشش کرے گا بھی تو ایسے فیصلے کو ایک بڑا بینچ (جس میں پہلے والے بینچ کے ججز شامل نہیں ہوں گے) اپیل کے اختیار کے  ذریعے کالعدم کر سکے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس فیصلے سے سپریم کورٹ اپنے ہی چیف جسٹس کی آمریت سے آزاد ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس اپنے ساتھی ججوں کی مشاورت سے کام کرے گا جبکہ سپریم کورٹ ایک ادارے کے طور پر کام کرے گی۔‘
’امید ہے کہ اب چیف جسٹس کو  بلیک میل کر کے یا اسے ہمنوا بنا کر پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنانے کا دور ختم ہو جائے گا۔‘
عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق ’اب ازخود نوٹس لیتے وقت چیف جسٹس یہ سوچے گا کہ پہلے تین ججوں کا بینچ بنانا ہے، اور پھر بعد میں اس سے بڑا بینچ اپیل بھی سنے گا۔‘
’اب وہ بہت ہی بدقسمت ہو گا جس کے خلاف دونوں فورمز (پانچ رکنی ابتدائی بینچ اور پھر لارجر ایپلیٹ بینچ) تقریباً پوری سپریم کورٹ ہی فیصلہ دے دے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’اب سپریم کورٹ کسی فائل کو سالہا سال تک دبا کر نہیں بیٹھے گی بلکہ دو ہفتوں میں کیس کی ابتدائی سماعت ہو سکے گی۔‘

شیئر: