Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی جن کے فیصلے بولتے ہیں 

پاکستان کی سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اتوار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ 
چیف جسٹس قاضی فائز کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک ممتاز خاندان سے ہے۔ ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ تحریک پاکستان کے رہنما اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی جبکہ دادا قاضی جلال الدین برطانوی دور میں ریاست قلات کے وزیراعظم  اور اس سے پہلے افغانستان میں جج تھے۔ 
ان کے خاندان کے افراد نہ صرف پاکستان  بلکہ ماضی میں افغانستان، برطانوی ہندوستان اور ریاست قلات کی حکومتوں میں اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ 
قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ چار دہائیوں سے بار اور بنچ کا حصہ ہیں۔ سنہ 2009ء سے 2014ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے  اور ستمبر 2014ء میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔ 
انہیں 21 جون 2023 کو صدر عارف علوی نے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا ۔قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ 

تعلیم، وکالت اور جج بننے کا سفر 

قاضی فائز 26 اکتوبر 1959 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی حاصل کی۔ اس کے بعد کراچی کے گرائمر سکول سے او اور اے لیول پڑھا اور پھر لندن چلے گئے جہاں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے لندن سے بی اے  (آنرز) کے بعد انز آف کورٹ سکول آف لاء، لندن سے بار پروفیشنل امتحان پاس کیا اور 1982ء میں بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز (مڈل ٹیمپلز) میں درج ہوئے۔ 
لندن سے واپسی پر 1985ء میں بلوچستان ہائی کورٹ سے اپنے خاندانی پیشے وکالت کا آغاز کیا۔پاکستان کی چاروں ہائی کورٹس کے علاوہ سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ میں 24 سال تک بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔ 
قاضی فائز عیسیٰ اس نوع کے وکلا میں شامل رہے جو بلوچستان بار، سندھ ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن ہونے کے باوجود وکلا سیاست کا حصہ نہیں بنے۔ 
اس دوران زیادہ عرصہ کراچی میں رہے جہاں وہ ایک بڑی قانونی فرم کا حصہ تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ زیادہ تر کارپوریٹ مقدمات میں پیش ہوتے رہے۔انہیں بینکنگ، ماحولیات اور دیوانی مقدمات میں مہارت حاصل ہے۔ 
جسٹس فائز عیسیٰ کراچی ماس ٹرانزٹ، ہائی وے فنانسنگ اینڈ آپریشن، بلوچستان گراؤنڈ واٹر ریسورسز، کراچی واٹر سپلائی اینڈ سیوریج سیکٹر جیسے منصوبوں میں عالمی بینک  اورایشیائی ترقیاتی بینک کے قانونی معاون رہے۔ 
انہوں نے کراچی بدامنی کیس ،پی سی او ججز کیس سمیت کئی پیچیدہ مقدمات میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی بطور وکیل معاونت  بھی کی۔ اس کے علاوہ کئی بین الاقوامی مقدمات میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ 
چیف جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم جوڈیشل کمیشن ،پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن، نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی اور فیڈرل جوڈیشل کمیشن کے رُکن کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ 
انہوں نے سابق نگراں وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار کے ساتھ مل کر 1997ء میں پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے قوائد و ضوابط سے متعلق ایک کتاب بھی لکھی۔ اس کے علاوہ وہ ’بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ‘ نامی کتابچے کے مصنف بھی ہیں۔ 
قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی اور ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف وکلاء تحریک کی حمایت کی۔ انہوں نے چیف جسٹس اور عدلیہ کی بحالی کے لیے پاکستان کے بانی رہنماؤں کی اولادوں کے ساتھ مل کر اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو خط بھی لکھا تھا۔ 

قاضی فائز 26 اکتوبر 1959 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی حاصل کی۔ فائل فوٹو: پی ٹی وی

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے تین نومبر کی ایمرجنسی کو کالعدم قرار دے کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دیا توبلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت تمام پانچوں جج اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ ہائی کورٹ میں کوئی جج باقی نہیں رہا۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے قاضی فائز کو بلوچستان بلا کر 5 اگست2009ء کو بلوچستان ہائیکورٹ کا جج تعینات کیا۔ اکلوتے جج ہونے کی وجہ سے انہیں براہ راست چیف جسٹس بنایا گیا۔ یہ جسٹس منظور قادر کے بعد کسی شخص کو براہ راست چیف جسٹس لگانے کی دوسری مثال تھی۔ 
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے قاضی فائز عیسیٰ نے  2010  میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف پر قاتلانہ حملے اور 2012ء میں پیپلز پارٹی اور پاک فوج کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے میموگیٹ سکینڈل سے متعلق دو تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی بھی کی۔ 
دونوں معاملات میں سیاسی جماعت اور سویلین قیادت پر لگائے گئے سنگین الزامات جھوٹے پائے گئے۔  
قاضی فائز عیسیٰ ستمبر 2014ء تک بلوچستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے اس کے بعد وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔ 

والد قاضی عیسیٰ قائداعظم کے ساتھی تھے 

قاضی فائز کے والد قاضی محمد عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی  سمجھے جاتے تھے۔ وہ بلوچستان کے  پہلے بیرسٹر تھے جنہوں نے لندن سے تعلیم حاصل کی۔ 

قاضی فائز عیسٰی کے دادا نے 18 ویں صدی میں افغانستان سے پشین ہجرت کی تھی۔ فوٹو: اے پی پی

قاضی عیسیٰ نے 1939ء میں بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صوبائی صدر بنے۔ انہوں نے 1940ء میں  قرارداد پاکستان پیش کرنے لیے لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجتماع میں بلوچستان کی قیادت کی تھی۔ 
جون 1943ء میں دورہ بلوچستان کے موقع پر قاضی عیسی ٰنے قائداعظم کو احمد شاہ ابدالی کی تاریخی تلوار پیش کی۔ کہا جاتا ہے کہ 9 مئی کو لاہور میں نذر آتش کیا گیا تاریخی جناح ہاؤس بھی قائداعظم نے قاضیٰ عیسیٰ کے ذریعے خریدا تھا۔ 
قیام پاکستان کے بعد قاضی محمد عیسیٰ برازیل میں پاکستانی سفیر کے ساتھ ساتھ  مختلف اہم سرکاری عہدوں پر بھی تعینات رہے۔ 
اُن کی والدہ بیگم سعدیہ عیسٰی ایک سماجی کارکن اورکئی ہسپتالوں اور فلاحی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کی رُکن تھیں۔قاضی فائز کے ایک بھائی عظمت عیسیٰ پاکستان پاورٹی ایولوشن فنڈ کے سربراہ ہیں۔ 
قاضی فائز  نے اسی کی دہائی میں سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے کے زمیندار عبدالحق کھوسو کی بیٹی سرینا سے شادی کی  جن سے اُن کی دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔ 

قاضی فائز کے دادا کی افغانستان سے پاکستان ہجرت 

قاضی فائز کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے دادا قاضی جلال الدین افغانستان کے شہر قندھار میں قاضی تھے اسی مناسبت سے ان کا خاندان آج بھی قاضی کہلاتا ہے۔ 
قاضی جلال الدین ہزارہ قبیلے پر 18ویں صدی کے آخر میں افغانستان میں اس وقت کے حکمران کی جانب سے مظالم کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر انگریزیوں کے زیر تسلط بلوچستان کے شہر پشین آ گئے تھے۔ 

قاضی فائز عیسیٰ کے چچا قاضی محمد موسیٰ نے ایک آئرش خاتون جینیفر سے شادی کی تھی۔ فائل فوٹو

برطانوی راج میں وہ سٹیلمنٹ آفیسر سمیت مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ انگریز سرکار نے انہیں ’خان بہادر‘، ’سی آئی ای‘ کے خطاب دیے تھے۔ برطانوی حکومت نے قاضی جلال الدین کو سن اگست 1900ء میں قلات کی شاہی ریاست کے لئے سیاسی مشیر اور وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ 
مئی  2023ء میں قاضی فائز عیسیٰ نے لندن سکول آف اکنامک کے ایک میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحریر میں بتایا ہے کہ ’کلمہ حق کہنے کی پاداش میں میرے دادا قاضی جلال الدین اس سرزمین کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے جو آج پاکستان کہلاتی ہے۔ ہزارہ برادری، جو ایک نسلی اور مذہبی اقلیت ہے، پر جاری ظلم و ستم کے خلاف قاضی جلال الدین نے احتجاج کیا  جس نے افغانستان کے شاہ عبدالرحمٰن کو ناراض کر دیا۔‘
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ ان کے اجداد میں شاہ مسعود بابا بزرگ شخصیت اور لائق احترام تھے مگر اس کے باوجود ان کے دادا قاضی جلال الدین کو بادشاہ کے غضب سے بچنے کے لیے افغانستان میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا ۔ انہوں نے افغانستان سے متصل برطانوی بلوچستان کے علاقے پشین میں پناہ لی۔ 
قاضی فائز عیسیٰ کے بقول ان کے دادا قاضی جلال الدین نے 120 سال قبل مٹی کا دو منزلہ گھر بنوایا اور ترین قبیلے کی ایک مقامی خاتون سے شادی کی ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے جن کے نام انبیائے کرام کے نام پر بالترتیب محمد موسیٰ، محمد عیسٰی اور محمد اسماعیل رکھے گئے۔ 
قاضی فائز کے چچا قاضی موسیٰ آکسفورڈ کالج لندن سے پڑھے۔ ان کے دوسرے چچا قاضی اسماعیل لندن میں پائلٹ بنے اور اورینٹ ایئرویز کے طیارے اڑائے۔ 

قاضی فائز کی آئرش چچی  کا ذوالفقار علی بھٹو اور نواب بگٹی کے خلاف احتجاج 

قاضی فائز عیسیٰ کے چچا قاضی محمد موسیٰ نے ایک آئرش خاتون جینیفر سے شادی کی تھی جو لندن سے بلوچستان آکر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔جینیفر موسیٰ کو بلوچستان کی ممی جینیفرکا لقب دیا جاتا تھا۔انہوں نے 70 کی دہائی میں سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی  کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی رہیں۔ جینیفر نے 73ء کے آئین پر بلوچستان کے حقوق سے متعلق تحفظات کی بناپر دستخط نہیں کیے۔ 

قاضی فائز عیسیٰ نے 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات بھی کیں۔ فائل فوٹو

نیپ کے کارکن ڈاکٹر سلیم کرد نے اپنی کتاب  'روزن زندان 'میں لکھا ہے کہ جینیفر موسیٰ نے اگست 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور نواب اکبر بگٹی کی گورنری کے دوران  سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف خواتین کے احتجاج کی قیادت کی۔ یہ کوئٹہ کی سڑکوں پر خواتین کا پہلا مارچ تھا۔ 
قاضی فائز عیسیٰ کے چچا زاد بھائی جینفیر موسیٰ کے بیٹے اشرف جہانگیر قاضی پاکستان کے معروف سفارتکار ہیں۔ وہ امریکا، روس،چین، بھارت، جرمنی سمیت کئی اہم ممالک میں پاکستان کے سفیر، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مندوب، عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے رہ چکے ہیں۔ 
قاضی موسیٰ کی بیٹی بلوچستان کے معروف نواب خیر بخش مری کی اہلیہ تھیں اس لحاظ سے بلوچوں کے مری نواب قاضی فائز کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ 

قاضی عیسیٰ کے اہم فیصلے 

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر درج پروفائل میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے آئین اور قانون کی حکمرانی اور عوامی مفادات کے تحفظ کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔  
جسٹس عیسیٰ  خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے، توہین مذہب کے مقدمات میں اقلیتوں کو منصفانہ ٹرائل کا حق دینے  اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق بڑی واضح رائے رکھتے ہیں اور اس کا اظہار ان کے فیصلوں میں ملتا ہے۔ 

فیض آباد دھرنا کیس  

نومبر 2017  میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف کیس میں قاضی فائز اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی  بنچ کے 6 فروری 2019ء کے فیصلے میں قاضی فائز عیسی نے پاکستان کے سیاسی نظام میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور میڈیا کی سینسر شپ کو غیر آئینی قرار دیا۔ 
اس فیصلے میں قاضی فائز نے  وزارت دفاع کے توسط سے پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ماتحت ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔عدالت نے فوجی اور خفیہ اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس

فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے چند ماہ بعد مئی 2019ء میں صدر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دار کیا تھا۔ 

اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کو غلطی قرار دیا۔ فائل فوٹو

اس سے پہلے ریفرنس سامنے نہ لانے پر قاضی فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کے نام خط  لکھ کر اپنی کردار کشی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 
اس ریفرنس کو جون 2020ء میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے کالعدم قرار دے دیا۔ 
قاضی فائز عیسیٰ نے اثاثہ جات کیس میں سپریم کورٹ میں اپنی اور اہلیہ کی جائیدادوں سے متعلق مقدمے میں خود پیش ہوکر صفائی دی۔  
اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کو غلطی قرار دیا اور اعتراف کیا کہ ان کی حکومت کو کیس کے حقائق کے بارے میں گمراہ کیا گیا۔ 

سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن 

قاضی فائز عیسیٰ نے 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات بھی کیں۔ اس حملے میں 80 سے زائد افراد مارے گئے جن میں اکثریت وکلا کی تھی۔ 
56 روز کی سماعت کے بعددسمبر 2016ء میں قاضی فائز عیسیٰ نے 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کر کے اس وقت کی سیکورٹی اداروں، وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے اور اس وقت کے  وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے باعث تنقید کی۔

بلوچستان میں تعیناتی اور صحافیوں پر مقدمات کا حکم 

بلوچستان میں چیف جسٹس کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران قاضی فائز عیسٰی نے کالعدم تنظیموں کے بیانات اور دعوے شائع کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ بلوچستان کے صحافیوں کا مؤقف تھا کہ کالعدم تنظیمیں اس پابندی کا ذمہ دار صحافیوں کوقرار دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے اور ان کے خاندانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔  

جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ فائل فوٹو

صحافیوں نے کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے بعد بیانات چھاپے تو قاضی فائز عیسیٰ نے پولیس کو صحافیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعہ کے تحت مقدمات درج کرنے کا حکم دیا۔ ان کے حکم پر بلوچستان کے 10 سے زائد صحافیوں پر 12 مقدمات بنے جو اب تک قائم ہیں۔ 
بلوچستان کے سینئر صحافی تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقارقاضی فائز عیسٰی کی شخصیت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے دوران ان کےمقتدر قوتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے رہے اور انہیں زیادہ تناؤ کا سامنا کرنا پڑا تاہم بلوچستان میں تعیناتی کے دوران ایسا نہیں تھا۔ 
ان کے بقول کوئٹہ میں تعیناتی کے دوران قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں کے انتظامی امور میں خاص طور پر دلچسپی لی۔ انہوں نے عام سائل کو ریلیف دینے کی کوشش کی۔ 

شیئر: