Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ میں بینچز اب چیف جسٹس اکیلے نہیں بلکہ تین رکنی کمیٹی بنائے گی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا ہے اور قانون کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ 
سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں شامل 10 ججز نے قانون کے حق میں جب کہ پانچ ججز نے قانون کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصلے کا اعلان کیا۔
تاہم فل کورٹ میں شامل آٹھ ججوں نے قانون کے ماضی سے اطلاق کے سیکشن کو کالعدم قرار دے دیا جس کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ماضی میں دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جا سکتی۔ 
اس سیکشن کے حق میں بینچ کے سات ارکان نے رائے دی۔
مذکورہ قانون میں 184 (3) کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کے حوالے سے سیکشن کو سپریم کورٹ نے کثرت رائے سے قانونی قرار دے دیا۔ اس سیکشن کے حق میں نو ججوں نے جب کہ خلاف چھ ججوں نے فیصلہ دیا۔ 
قبل ازیں  فل کورٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔  
بدھ کی صبح جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا۔  
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ’کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دے چکا ہوں۔ تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔ میں آرٹیکل191 اور عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال اور اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا۔ فل کورٹ کےفیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اٹارنی جنرل پاکستان کا کہنا تھا سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا۔ ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا۔ جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔ 
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’1956کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی۔ آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے۔ آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟‘
اٹارنی جنرل عثمان انور کا کہنا تھا اختیار استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا۔ پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرینڈر کرنا نہیں۔ آرٹیکل 191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لاء بنا۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ لاء کا لفظ آئین میں 200 بار استعمال ہوا تو کیا اس کا ایک ہی مطلب ہو گا؟ جس پر عثمان انور کا کہنا تھا قانون یا تو پارلیمنٹ بناتی ہے یا پھر جج میڈ لاء ہوتا ہے۔‘
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ 
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟‘ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا 1956 کے رولز آئین کی کون سی شق کے مطابق بنے تھے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا سپریم کورٹ کے آخری رولز 1980 میں بنے تو مطلب پارلیمنٹ 43 سال سوتی رہی؟ 

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیا کہ ہم اپنے معاملات کیسے چلائیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا پارلیمنٹ کا ریکارڈ لائے ہیں آپ؟ اس ایکٹ پر بحث ہوئی تھی یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا پارلیمنٹ کا ریکارڈ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تین سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا۔ پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کے لیے ججز کمیٹی بنا دی۔
’ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا۔ اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں۔ جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اسےٹھیک کرتی۔ ‘
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’پارلیمان ہماری دشمن نہیں۔ لوگوں کے حقوق ہیں، ہم بار بار بھول جاتے ہیں دنیا مل کر چلتی ہے۔ ہم ایک دوسرےکے ادارے کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں۔ جیو اور جینے دو کا اصول اپنانا ہو گا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’اٹارنی جنرل، قانون غلط ہے یہ درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہے، آپ یہ بتائیں قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آ گے جا سکتی تھی۔ پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیا کہ ہم اپنے معاملات کیسے چلائیں۔ پارلیمنٹ نے اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی۔ ہم آئینی ادارے پارلیمنٹ میں ’میم میخ‘ نکال رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اختیار سماعت بڑھایا نہیں بلکہ تخلیق کیا۔ کیا بطور سپریم کورٹ ہم ایسا کر سکتے ہیں جس کا اختیار نہیں تھا۔‘
اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے شام کو سنایا گیا۔ 

شیئر: