Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائفر میں دھمکی یا سازش کا لفظ سرے سے تھا ہی نہیں: سابق سفیر اسد مجید

سابق سفیر اسد مجید نے کہا کہ سازش اور دھمکی جسیے معنی سیاسی قیادت نے خود اخذ کیے (فوٹو: اے پی پی)
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ ’میرے سائفر میں کسی دھمکی اور سازش کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔‘
اُردو نیوز کو دستیاب تحریری بیان کے مطابق سابق سفیر اسد مجید نے سازش اور دھمکی سے متعلق سائفر میں کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسا تبصرہ کیا تھا۔
تحریری بیان میں انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ سازش اور دھمکی جسیے معنی یہاں کی سیاسی قیادت نے خود سے اخذ کیے۔‘
بیان کے مطابق سابق سفیر نے واضح کیا کہ ’میں نے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال سائفر کے ذریعے معمول کے مطابق رپورٹ کیا، یہ ایک سادہ اور معمول کی خط و کتابت تھی لیکن کوڈڈ تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں پاکستان کی فارن سروس گریڈ 22 کا افسر تھا اور میں نے دسمبر 2022 سے اپنی ریٹائرمنٹ تک وزارت خارجہ امور پاکستان، اسلام آباد میں سیکریٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس پوسٹنگ سے پہلے میں جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا۔‘
سابق سفیر اسد مجید کے بقول انہوں نے سات مارچ 2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے تحت اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کو مدعو کیا تھا۔ ’یہ ایک پہلے سے طے شدہ ظہرانہ تھا جس کی میزبانی میں نے واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی تھی۔‘
’یہ ملاقات تقریباً 12 بج کر 30 منٹ پر طے تھی اور ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ظہرانے میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کے ہمراہ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ لیسلی ویگوری بھی موجود تھے۔‘

سابق سفیر نے کہا کہ انہوں نے سات مارچ 2022 سے آج تک سابق وزیراعظم یا ان کے مشیر سے ملاقات نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)

اسد مجید کے بیان کے مطابق ’ہماری طرف سے میں خود تھا، ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر نعمان اعوان، ڈپٹی چیف آف مشن نوید بخاری اور کونسلر پولیٹیکل قاسم محی الدین موجود تھے۔ دونوں فریقوں کو اس بات کا علم تھا کہ بات چیت کے منٹس تیار کیے جا رہے ہیں۔‘
’دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ملاقات کا یہ مروجہ طریقہ تھا۔ یہ ملاقات پاکستان ہاؤس میں اس لیے ہو رہی تھی کہ کووڈ کے دوران امریکی فریق اپنے احاطے میں ملاقاتوں کی میزبانی کرنے سے قاصر تھا۔‘
ان کے مطابق ’بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا۔ ایک سائفر ٹیلی گرام جس میں خارجہ سیکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا وہ میں نے بھجوا دیا پھر مجاز اتھارٹی نے اس کی کاپیاں دوسروں کے ساتھ شیئر کیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ سائفر ہمارے خفیہ کوڈڈ کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے بھیجا گیا تھا جو پاکستان کے نمائندہ خارجہ مشنز اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہدایات کابینہ ڈویژن نے دے رکھی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کو درست طریقے سے اسلام آباد کو اس سائفر ٹیلی گرام میں رپورٹ کیا۔ سائفر بھیجنا بیرون ملک سفارتی مشنوں کا معمول ہے۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی سازش کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی تھی۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔‘
سابق سفیر کے بقول انہوں نے تجویز دی تھی کہ اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں میں امریکہ کو ڈیمارش جاری کیا جائے۔ 31 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ڈیمارش کر دیا گیا۔

اسد مجید نے کہا کہ سائفر واقعے نے ہمارے سفارت کاروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا (فوٹو: اے پی پی)

قومی سلامتی کمیٹی نے بارہا یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یہ معاملہ صرف ڈیمارش کا ہے اور کوئی سازش نہیں پائی گئی۔
اسد مجید نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس 22 اپریل 2022 کو ہوا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں میں سائفر ٹیلی گرام کے مندرجات کا جائزہ لیا گیا اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے سربراہان سے رائے لی گئی۔
’ایک بار پھر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔ وزارت خارجہ نے 25 اپریل 2022 کو اپنی پریس بریفنگ میں اس موقف کا اعادہ کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے سات مارچ 2022 سے آج تک کی مدت کے دوران سابق وزیراعظم یا ان کے مشیر سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملاقات یا بات چیت نہیں کی۔‘
سابق سفیر اسد مجید کے بیان کے مطابق فارن سروس میں ایک پروفیشنل کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ سائفر واقعے نے ہمارے مواصلاتی نظام کی سالمیت، ہمارے سفارت کاروں کی ساکھ اور سفارت کاری کو نقصان پہنچایا ہے جس کے ہمارے مستقبل کے سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 

شیئر: