Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ایس ایم ظفر نے نُور جہاں کو برقعے میں عدالت پیش کیا

ایس ایم ظفر نے 1953 میں نامور گلوکارہ نور جہاں کے لیے مقدمہ لڑا (فائل فوٹو: پی ٹی وی)
پاکستان کے معروف قانون دان ایس ایم ظفر 93 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے ہیں۔ سید محمد ظفر یا ایس ایم ظفر کا پاکستان کی آئینی، قانونی اور سیاسی تاریخ  سے اتنا ہی رشتہ ہے جتنا کہ اس تاریخ کا خود اپنے آپ سے۔
برما کے شہر رنگون میں 6 دسمبر 1930 میں پیدا ہونے والے سید محمد ظفر نے اپنے بچپن کا کچھ وقت رنگون میں ہی گزارا، بعدازاں حالات کی خرابی کے باعث ان کا خاندان پنجاب منتقل ہو گیا۔ ان کے خاندان کا پڑاؤ شکرگڑھ کے علاقے قافیاں والا میں ہوا۔
انہوں نے میٹرک 1945 میں شکرگڑھ سے کیا۔ اور قیام پاکستان سے دو سال پہلے ہی انٹرمیڈیٹ کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ بعدازاں یہیں سے قانون کی ڈگری بھی لی اور 1950 میں لاہور سے وکالت کا باقاعدہ آغاز کیا۔
وکالت میں ایس ایم ظفر کے پہلے استاد سردار اقبال تھے۔ ان ہی کے چیمبر سے انہوں نے اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ سردار اقبال بعد میں پاکستان کی اعلٰی عدلیہ میں ایک بڑے جج کے طور پر اپنا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایس ایم ظفر کئی تصانیف کے خالق ہیں۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ قانونی ادب میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ باقی کتابوں میں ’عدالت میں سیاست‘ ’عوام پارلیمنٹ اور اسلام‘، ’ڈکٹیٹر کون‘، ’عوام کی عدالت میں‘، ’پاکستان بنام کرپشن‘، ’غیب سے مضامین‘، ’سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی‘ اور ’تذکرے اور جائزے‘ شامل ہیں۔
 1965 میں پاکستان انڈیا کے درمیان جنگ کے وقت ایس ایم ظفر پاکستان کے وفاقی وزیر قانون تھے۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ صدر ایوب سردار اقبال کو اپنا وزیر قانون بنانا چاہتے تھے، لیکن سردار صاحب نے انہیں ایوب کے حوالے کر دیا۔ یہ ان کی سیاست میں پہلی باقاعدہ انٹری تھی۔
ملک کے ایک بڑے لا چیمبر کا حصہ ہونے کی وجہ سے ایس ایم ظفر کا ملکی قانونی معاملات سے تعلق اوائل میں شروع ہو گیا تھا۔ اور 62 کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی شقیں ان کی ہی کوششوں کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں۔
اپنی تصنیف ’میرے مشہور مقدمے‘ میں انہوں نے اپنے عہد کے بڑے بڑے مقدمات جس میں وہ بطور وکیل پیش ہوئے کو آسان فہم زبان میں لکھا ہے۔ کتاب کے پہلے مقدمے کا احوال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ سال 1953 میں ملک کی نامور گلوکارہ میڈم نور جہاں کے خلاف لاہور کی ایک سول عدالت میں ان کی ملازمہ نے مقدمہ دائر کر دیا۔
ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ مقدمہ یہ تھا کہ نگہت نامی ملازمہ کا الزام تھا کہ انہیں میڈیم نے ہراساں کیا ہے اور عزت نفس مجروع کی۔ میڈیم نور جہاں نے شہر کے چوٹی کے وکیل سردار اقبال کو اپنا مقدمہ سونپ دیا۔

پاکستان کے آئین کی تیاری میں بھی ایس ایم ظفر نے کلیدی کردار ادا کیا (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

سردار اقبال نے اس کیس کی تیار کی ذمہ داری ایس ایم ظفر کو سونپ دی۔
وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سردار اقبال نے انہیں سول پروسیجر کوڈ کی دفعہ 205 تیار کرنے کو کہا جس میں کسی پردہ دار خاتون کو عدالتی حاضری سے استثیٰ حاصل ہے۔ ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ وہ یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گئے کہ میڈم نور جہاں کو پردہ دار خاتون کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے جس پر سردار اقبال نے انہیں بتایا کہ یہ تو قانون ہے۔
قصہ مختصر اس کیس میں میڈم نور جہاں برقعے میں عدالت میں پیش ہوئیں۔ بعد ازاں ان کی حاضری معافی بھی ہو گئی اور اپنی ملازمہ سے صلح بھی۔
’میرے مشہور مقدمے‘ میں ایک جگہ 71 میں ملک کے دولخت ہو جانے کے بعد کے واقعات میں سے ایک نقل کرتے ہوئے ایس ایم ظفر لکتھے ہیں کہ کچھ افراد پر فوجی بغاوت کا مقدمہ اٹک قلعہ میں چلایا جا رہا تھا یہ مقدمہ ان کو مل گیا۔ اس مقدمے کو اٹک سازش کیس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس میں کئی فوجی افسروں پر بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا۔

ایس ایم ظفر کے صاحبزادے علی ظفر تحریک انصاف کے سینیٹر اور ایک نامور وکیل ہیں (فائل فوٹو: پی ٹی آئی فیس بک)

ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ عدالت کا جج بھی فوجی تھا۔ یہ بات مقدمے میں ثابت ہوگئی تھی کہ فوجی افسروں میں غم وغصہ ملک کے ٹوٹنے کی وجہ سے تھا، اور اسی غصے کی انتہا جانچنے کے لیے انہیں ٹریپ کیا گیا اور حکام بالا کے احکامات پر چند جاسوسوں نے ان کو عملی اقدام کرنے پر اکسایا، تاہم پھر بھی عدالت نے ان افراد کو سزائیں سنا دیں۔
ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ اس عدالت کے جج نے خود منتخب حکومت کو تختہ الٹ دیا۔ یہ جج ضیا الحق تھے جنہوں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے بندوق کے زور پر ہٹایا اور خود ملک سنبھال لیا۔ ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد انہوں نے انہیں خط لکھا اور یاد دلایا کہ ان فوجیوں کا تو قصور ہی نہیں تھا، اصل بغاوت تو آپ نے خود کی ہے ۔ اس خط کے بعد ضیاالحق نے وہ تمام ملزمان رہا کر دیے۔
پاکستان کے آئین کی تیاری میں بھی ایس ایم ظفر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1976 میں ہیومین رائٹس سوسائٹی آف پاکستان نامی ادارہ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کر رہا ہے۔
پرویز مشرف کے مارشل لا میں وہ کچھ عرصہ مسلم لیگ ق کا حصہ رہے۔ اس کے بعد 2006 میں وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2014 میں انہوں نے وکالت اور سیاست دونوں سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کے صاحب زادے علی ظفر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ایک نامور وکیل ہیں۔

شیئر: