Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

سپریم کورٹ نے ابھی تک پٹیشن کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی نگران حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں اور سیاسی پناہ مانگنے والوں کی اجتماعی بے دخلی کے خلاف نامور سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور  وکلا نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن کی کاپی ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نے اپنی پٹیشن میں یہ استدعا کی کہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور جن کی سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں زیرالتوا ہے ان کو ڈی پورٹ نہ کیا جائے بلکہ ان کے کیسز جلدی نمٹائے جائیں۔ درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیـں جن کو ہم پیدائش کی بیناد پر پاکستانی شہری سمجھتے ہیں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘
درخواست دائر کرنے والے نامور افراد میں پاکستان پیپیلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، انسانی حقوق کی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ، جبران ناصر، روحیل کاسی، سید معاذ شاہ، وکیل ایمان زینب مزاری، احمد شبر، پاسٹر عزالہ پروین، عمران شفیق ایڈوکیٹ اور دوسرے شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے ابھی تک پٹیشن کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کی ہے۔
خیال رہے اکتوبر کے شروع میں حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ یکم نومبر سے غیرقانوی طور پر مقیم غیرملکیوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے اور جائیدادیں ضبط کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

حکومت نے یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو جبری بے دخلی کا اعلان کر رکھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں دائر درخواست آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں وفاق کو نگران وزیراعظم، اپیکس کمیٹی کو سیکریٹری داخلہ کے ذریعے، تمام چار صوبوں، اسلام آباد، اور کمشنر برائے افغان پناہ گزین کو فریق بنایا گیا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نگران حکومت کا فیصلہ افغان مہاجرین، سیاسی پناہ مانگنے والوں اور غیرقانوی مہاجرین  کی میزبانی کے پاکستان کے 45 سالہ پالیسی کو الٹ دینے کے مترادف ہے، جو کہ نگران حکومت کے محدود آئینی حدود سے باہر ہے۔
’چونکہ افغان مہاجرین کی واپسی رضاکارانہ نہیں اور نہ ہی افغانستان کی حکومت ان کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ جبری بے دخلی کے نیتجے میں مہاجرین بھوک اور ٹھنڈ کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں جن میں پاکستان کے ممکنہ شہری اور قانونی طور پر مقیم مہاجرین بھی ہوسکتے ہیں۔‘
درخواست میں کہا گیا ہے کہ غیرقانونی مہاجرین کو واپس بھیجنے کا ایشو پاکستان کی منتختب حکومتوں کے سامنے بھی آتا رہا ہے جنہوں نے اس حوالے سے اجتماعی بے دخلی کے بجائے انسانی ہمدردی کے بنیاد پر مناسب فیصلے کیے۔
’یہ انتہائی قابل تشویش بات ہے کہ نگراں حکومت اپنے بنیادی کام یعنی الیکشن کی تیاری کرنے کے بجائے تزویراتی اہمیت کے فیصلے لے رہی ہے جن کے اثرات اس ملک کے باشندوں پر ہوں گے۔‘

سپریم کورٹ میں دائر درخواست آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی افراد کو نکالنے کے فیصلے کو غیرقانوی اور غیرآئینی قرار دیا جائے۔
درخواست میں عدالت عظمٰی سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کو کسی بھی ایسے شخص کو ڈی پورٹ کرنے یا ہراساں کرنے سے روکا جائے جو مہاجر ہو، یا سیاسی پناہ کا طلب گار ہو جس کے پاس پی او آر کارڈ، افغان شہریت کارڈ، یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کردہ سیاسی پناہ کی درخواست یا یو این ایچ سی کے کیس پارٹنر کی جانب سے جاری کردہ پری سکریننگ سلب ہو۔
دورخواست میں یہ گزارش بھی کی گئی ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو زبردستی بے دخلی یا ڈی پورٹ کرنے سے روکا جائے جو پاکستان میں پیدا ہوا ہو اور اس بنیاد پر پاکستانی شہریت کا متمنی ہو۔

شیئر: