Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قید میں عمران خان کے 100 دن، جیل کے سیل سے ورزش کی سائیکل تک

سینیٹر محمد ہمایوں مہمند عمران خان کی عدم موجودگی کو گھر کے ایک ایسے بڑے سے مماثل قرار دیتے ہیں جو ہسپتال میں ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’عمران خان پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کی سربراہی کیا کرتے تھے، تمام کمیٹیوں کو گائیڈ لائنز دیتے تھے اور پارٹی کے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسی متحرک شخصیت ہیں جنہوں نے گولی لگنے کے چند دنوں بعد ہی پارٹی امور دوبارہ سنبھال لیے تھے۔ ہم سب عمران خان کو بہت مس کر رہے ہیں۔
یہ الفاظ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان شعیب شاہین کے ہیں جنہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ گزرے وہ دن یاد کیے جب وہ جیل سے باہر تھے۔
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی امور اب بھی عمران خان کو اعتماد میں لے کر چلائے جا رہے ہیں لیکن ان کی یاد بھی بہت آ رہی ہے۔‘
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو پابندِ سلاسل ہوئے 100 دن مکمل ہو گئے ہیں۔
رواں برس پانچ اگست کو عدالت نے انہیں توشہ خانہ کے تحائف فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ انہیں زمان پارک لاہور سے اُس وقت گرفتار کیا گیا جب معمول سے ہٹ کر زمان پارک کے باہر پارٹی ورکروں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان کو تین برس قید کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا کی پاداش میں انہیں پہلے اٹک جیل میں رکھا گیا تاہم بعد میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اِن 100 دنوں میں ان کے وکلا اور پارٹی رہنما جیل میں اُن سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کو جون 2022 میں پارٹی کا دوبارہ چیئرمین منتخب ہونے کے بعد مسلسل مشکلات کا سامنا رہا۔ ان کے جیل جانے کے بعد ان کے ساتھی انہیں چھوڑ گئے اور پارٹی کے بہت سے سینیئر رہنما دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئے یا انہوں نے نئی جماعت بنا لی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی کے لیے یہ 100 دن کیسے رہے؟ پارٹی معاملات کس طرح چلائے گئے اور مجموعی طور پر پاکستان تحریک انصاف نے ان 100 دنوں میں کیا کھویا اور کیا پایا؟
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے ماضی قریب میں عمران خان کی متحرک زندگی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران خان کی موجودگی سے تمام کارکنوں اور رہنماؤں کو تحریک ملتی تھی۔ ہم نے تو ان کی عدم موجودگی میں سب کچھ کھویا ہی کھویا ہے۔‘

عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں گرفتار کرنے کے بعد اٹک جیل میں رکھا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹر محمد ہمایوں مہمند کو حال ہی میں پارٹی کی ’پولیٹیکل انگیجمنٹ کمیٹی‘ میں شامل کیا گیا ہے جس کا مقصد دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ پارٹی کے تعلقات بہتر بنانا اور پارٹی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔
وہ عمران خان کی عدم موجودگی کو گھر کے ایک ایسے بڑے سے مماثل قرار دیتے ہیں جو ہسپتال میں ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گھر کا سرپرست سب سے اہم فرد ہوتا ہے۔ آپ سوچیں کہ جب ایک ایسا بندہ گھر کی بجائے ہسپتال میں ہو تو گھر کا ماحول کیسا ہو گا؟ ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
محمد ہمایوں مہمند نے سنہ 1992 میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت پوری دنیا پاکستان کی ہار کی بات کر رہی تھی۔ سارے لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ہار جائے گا لیکن عمران خان نے کہا کہ ہم جیتیں گے اور وہ جیت گئے۔
ان کے مطابق حالیہ سیاسی منظر نامے میں بھی صورتِ حال 92 کے ورلڈ کپ جیسی ہی ہے جہاں سب نے عمران خان کی ہار پر شرطیں لگا رکھی ہیں۔
شعیب شاہین کے مطابق عمران خان کے جیل جانے سے پارٹی پر ایک طرح سے مثبت اثر پڑا ہے کیونکہ لوگ اب پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ’عمران خان جب جیل سے باہر تھے تو کسی حد تک پارٹی پوزیشن بہتر تھی لیکن اُن کے جیل جانے سے پارٹی میں دراڑیں پڑ گئیں اور لوگ مختلف طریقوں سے الگ ہوتے گئے، تاہم پارٹی کے معاملات آج بھی عمران خان کو اعتماد میں لے کر چلائے جا رہے ہیں یا پھر پارٹی کی کور کمیٹی فیصلے کرتی ہے۔ ہر دو دن بعد کور کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے۔‘

عمران خان کی جیل میں اپنی اہلیہ اور خاندان کے دیگر ارکان سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کے یہ 100 دن اٹک اور اڈیالہ جیل میں گزرے۔ وہ جب اٹک جیل میں تھے تو ان کی اہلیہ بشری بی بی نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کو خط لکھا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان پرزنز رولز کے رول نمبر 243 اور 248 کے تحت عمران خان جیل میں ’بی‘ کلاس کے مستحق ہیں۔
بشریٰ بی بی نے خط میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب سے استدعا کی تھی کہ اٹک جیل میں ’بی‘ کلاس کی سہولت موجود نہیں چناںچہ عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے جس کے بعد انہیں ستمبر میں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
جیل میں گزرے اِن 100 دنوں کے دوران عمران خان کے لیے اپنے بچوں سے ٹیلیفونک گفتگو اور خاندان سے ملاقات بھی ایک مشکل مرحلہ رہا۔
انہوں نے بارہا درخواست کی کہ برطانیہ میں موجود اُن کے بیٹوں سے اُن کی بات کروائی جائے۔ اکتوبر کے مہینے میں انہوں نے دو بار اپنے بیٹوں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس کا دورانیہ مبینہ طور پر 30 منٹ رہا۔ اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی اپنے بیٹے سلیمان اور قاسم سے گفتگو کر رہے تھے کہ وہ دونوں جذباتی ہو گئے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیٹوں کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی۔ تاہم اب بھی ان کے لیے اہنے بچوں سے رابطہ کرنا عدالتی حکم کے ساتھ مشروط ہے۔ عدالت نے حال ہی میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو عمران خان اور ان کے بیٹوں کے درمیان فون کال کا بندوبست کرنے میں ناکامی پر نوٹس جاری کیا ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق جیل حکام کو پابند بنایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے بیٹوں کے مابین ہر ہفتے رابطہ کروایا جائے تاہم اس حوالے سے غفلت برتنے پر عدالت نے جیل حکام کو نوٹس بھیجا ہے۔

عمران خان کو ستمبر میں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چیئرمین پی ٹی آئی کی بہن عظمٰی خان اپنے بھائی سے ملاقات نہ ہونے کے خلاف جیل کے باہر دھرنا بھی دے چکی ہیں۔ عمران خان کی اپنی اہلیہ اور خاندان کے دیگر ارکان سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ اڈیالہ جیل کے کانفرنس روم میں دونوں بہنوں عظمیٰ خان، علیمہ خان اور اہلیہ بشری بی بی ملاقات کرتی رہی ہیں۔
عمران خان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات میں ان کے خلاف زیرِسماعت مقدمات اور ان کی صحت سے متعلق معاملات پر گفتگو ہوئی۔ جیل ایس او پیز کے مطابق قیدیوں کی اپنے اہل خانے سے ملاقاتوں کے لیے منگل اور جمعرات کے دن مختص کیے گئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے اس لیے انہی دنوں میں عمران خان سے ملاقات کی۔
اس حوالے سے سینیٹر ہمایوں مہمند کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو اپنے پارٹی ورکرز اور اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے لیکن اس معاملے میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ آپ ایک سیاسی جماعت کو قومی دھارے سے کسی طور پر الگ نہیں کر سکتے۔

کھانوں اور ورزش کے حوالے سے مشکل

عمران خان ایک ایتھلیٹ ہیں اور روزانہ ورزش کرنا ان کا معمول ہے۔ اس لیے ان کے کھانوں اور ورزش کے حوالے سے بھی یہ سو دن مشکل رہے۔
عمران خان جب وزیراعظم تھے تو وہ وقتاً فوقتاً عوام کو کوئی کتاب پڑھنے کے لیے تجویز کرتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مطالعہ کے بھی شوقین ہیں۔ ان کی خواہش پر بہت سی کتابیں مطالعہ کے لیے دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مجموعی پر انگریزی ترجمے کے ساتھ 4 قرآنی نسخے جبکہ اسلامی تاریخ کی 25 کتابیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔

شعیب شاہین کے مطابق عمران خان نے گولی لگنے کے چند دنوں بعد ہی پارٹی امور دوبارہ سنبھال لیے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق وزیراعظم کو جیل میں یہ تمام سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی عدالت میں سماعت ہوتی رہی اور بالآخر انہیں مطلوبہ سہولیات فراہم کر دی گئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر میں ہی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں سہولیات کی فراہمی، خاندان، وکلا اور ذاتی معالج سے ملاقات کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ بعدازاں اٹارنی جنرل کی جانب سے 14 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو کھانے میں دیسی چکن اور بکرے کا گوشت دیا جاتا ہے، ان کے لیے پنکھا اور روم کولر بھی دستیاب ہے جبکہ اہلخانہ اور وکلا کی بھی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان کو سب سے محفوظ ہائی آبزرویشن بلاک میں رکھا گیا ہے۔ 11 فٹ لمبے اور 9 فٹ چوڑے سیل میں ایک پنکھا اور روم کولر کی سہولت دستیاب ہے، جبکہ غسل خانے کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق جیل میں ایک بستر، گدا، چار تکیے، کرسی، میز اور جائے نماز بھی دی گئی ہے۔ جیل میں 21 انچ کا ایل ای ڈی ٹی وی بھی موجود ہے جبکہ اخبار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو ورزش کے لیے 13 بائی 44 فٹ کی جگہ میں چہل قدمی کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ عمران خان نے اس دوران جیل میں ورزش کے لیے سائیکل بھی منگوائی تھی جو انہیں فراہم کر دی گئی تھی۔ ان کی ہدایت پر سائیکل کو مخصوص جگہ نصب کر دیا گیا۔

ان 100 دنوں میں  پی ٹی آئی کو کارنر میٹنگز یا جلسے جلوس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان 100 دنوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سیاسی محاذ پر کئی جماعتیں متحرک نظر آئیں مگر پی ٹی آئی کو کارنر میٹنگز یا جلسے جلوس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سینیٹر ہمایوں مہمند کہتے ہیں کہ ’پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد ہم نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں 10، 12 لوگ موجود ہیں جن کی وفاداریاں تبدیل نہیں ہو سکتیں۔ ہم دیگر سیاسی جماعتوں سے بات کر رہے ہیں اور الیکشنز کی تیاری بھی جاری ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان ایڈووکیٹ شعیب شاہین کا دعویٰ ہے کہ ’عمران خان صرف سوشل میڈیا پر ہی مقبول نہیں ہیں بلکہ وہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تو محض اس مقبولیت کا اظہار ہوتا ہے کیوںکہ مین سٹریم میڈیا تو کچھ دکھا ہی نہیں رہا۔
خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں پانچ اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے تین برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ان کی سزا نو اگست کو معطل کر دی گئی تھی لیکن عمران خان جیل میں ہی رہے کیونکہ وہ سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر تھے۔

شیئر: