Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی شہری جو 40 برس تک عازمین کو مفت سفر حج پر لے جاتے رہے

وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی سفر حج پر جاچکے ہیں (فوٹو سبق)
سعودی عرب کے علاقے حائل کے شہری التمیمی کا کہنا ہے کہ وہ 40 سال سے علاقے اور اطراف کے لوگوں کو مختلف ذرائع سے سفر حج پر لے جا رہے ہیں۔
سبق ویب کے ساتھ سے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے سعد جاراللہ الرشید التمیمی نے بتایا کہ وہ حائل سے 100 کلو میٹر جنوب میں الغزالہ گورنریٹ کے المھاش قریے کے رہائشی ہیں۔
 1978 سے 2018 تک والد کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے وہ اپنے علاقے اور اطراف کے رہنے والوں کو مکہ اور وہاں سے مقامات حج  تک مفت لاتے اور لے جاتے رہے ہیں۔

 اب بیٹا جی ایم سی کے ذریعے عازمین کو خدمات فراہم کرتا ہے۔ (فوٹو سبق)

التمیمی نے بتایا کہ ان کے والد نے دو مرتبہ حج کیا ہے۔ پہلا حج اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ اونٹوں پر کیا۔ اس سفر میں انہیں مکہ پہنچنے میں ایک ماہ لگا۔ دوسرا حج گاڑی کے ذریعے کیا جس میں 9 دن لگے۔
انہوں نے کہا کہ 40 سال تک گاڑی کے ایندھن اور اس کی مینٹیننس کا خیال رکھا۔ سفر حج میں کافی، چائے اور کھانا لے کر چلتا تھا تاکہ عازمین کو پریشانی نہ ہو۔ اس کے اخراجات کے حوالے سے کسی کی مدد نہیں لی۔
 التمیمی کا کہنا تھا کہ ابتدائی سفر کا آغاز مرسیڈیز کے بڑے ٹرک سے کیا۔ اس میں 85 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ بعد ازاں اسے دو منزلہ بنایا۔ اوپری حصہ مردوں کے لیے اور نیچے خواتین کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔

سفر حج کی ابتدا بڑے مرسڈیز ٹرک سے کی تھی۔ (فوٹو سبق)

التمیمی نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بعد میں علاقے کی طالبات کو سکول لانے لے جانے کے لیے چھوٹی بس خریدی اس پر بھی عازمین کے سفر کا سلسلہ جاری رکھا جس کے کچھ عرصے بعد اسے تبدیل کر کے بڑی بس حاصل کی۔
 اس بس میں 50 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس کے ذریعے 2018 تک عازمین کو حج کے سفر پر پہنچاتا رہا۔
 التمیمی نے کہا کہ ایک نوٹ بک رکھی تھی اس میں عازمین کا نام درج کیا جاتا تھا اور بکنگ کا آغاز رمضان سے پہلے شروع ہوجاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں سفر حج مشکل ہوتا تھا۔
 اس سوال پر التمیمی نے بتایا ان کے ہمراہ پاکستان، انڈیا، افغانستان، مصر، اردن، تیونس، مراکش سمیت متعدد قوموں کے لوگ سفر حج پر ہوتے تھے۔

اس دور میں سفر حج میں بہت سی مشکلات ہوتی تھیں۔ (فوٹو سبق)

سفر حج کے دوران پیش آنے والے ایک واقعہ دہراتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک انڈین شہری نے ان کے ہمراہ سفر کیا تھا، بس میں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تو انہوں نے حج پر جانے کے شوق میں پورا سفر کھڑے ہو کر طے کیا تھا۔
سڑکوں کے حوالے سے التمیمی نے بتایا الغزالہ سے النقرہ تک سڑک کچی تھی۔ 
 ایک مرتبہ حج موسم میں رات کے وقت سفر کے دوران بارش ہوگئی جس کی وجہ سے ’غار االمجیلی‘ میں رکنا پڑا۔

اس وقت لوگ زندگی کی سختیاں برداشت کرتے تھے (فوٹو سبق)

زائرین کو درپیش صحت کے مسائل کے حوالے سے التمیمی نے بتایا کہ اس وقت لوگ زندگی کی سختیاں برداشت کرتے تھے۔
’الوداعی طواف کے دوران ایک حاجی کو سن سٹروک کا سامنا کرنا پڑا مگر ہم نے اس کی دیکھ بھال کی۔ کچھ تکلیف اس نے بھی برداشت کی۔‘
التمیمی کا کہنا تھا کہ اب جی ایم سی ان کے بیٹے راشد البکر کی ہے، وہ گزشتہ 15 سال سے ان کے ہمراہ تھے کچھ عازمین کو رضاکارانہ طور پر خدمات فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا اس زمانے میں حج کے سفر کے دوران مختلف خاندانوں کو ایک دوسرے کو جاننے، مرد و خواتین اور بچوں، بچیوں کے کام  اور رکھ رکھاؤ کو دیکھنے کے بعد شادیاں ہوتی تھیں۔ 

اب سفر حج کو نہایت آسان اور محفوظ بنا دیا گیا ہے (فوٹو سبق)

التمیمی نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی سفر حج پر جا چکے ہیں اور انہیں عازمین کو فراہم کی جانے والی خدمات کے حوالے سے بتاتے ہیں۔
موجودہ دور میں سفر حج کے بارے میں التمیمی کا کہنا تھا اب حالات بدل چکے ہیں اور خادم حرمین شریفین کے دور میں حج کو نہایت آسان اور محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ عازمین کو سفر حج میں خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: