Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمین سے وفا ، زندگی میں زمین کے اوپر، موت کے بعد زمین کے نیچے

وہ نئے کپڑے اورخاندانی جھومر پہن کر سلام کرنے پہنچی، اس پر سچ مچ قیامت ٹوٹ گئی
* * * *اُمِ مزمل ۔ جدہ* * * *
وہ جیسے ہی کشتی میں لسی کا گلاس لئے چنار کے درخت کے قریب پہنچی، وہ متلاشی نگاہوں کے ساتھ اس سے مخاطب ہوا کہ تم اتنی دیر سے کیوں آئی ہو۔ میں کب سے تمہارا انتظار کررہا تھا۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی، سائیں جی! بڑی بی بی نے مجھے کمرے کی صفائی کیلئے کہا تھا، وہ کرچکی تو انہوں نے مہمانوں کیلئے بنائے جانے والے شام کے کھانوں کی تیاری باورچی خانہ میں جاکر دیکھنے کو کہا، پھر آپ کے اور آپ کے دوستوں کے کپڑے دوبارہ سے استری کرکے لانے کو کہا اور جب آپ کا پیغام ملا تو چھوٹی بھابھی کی بڑی بیٹی کو میرے ہاتھ کی بنی چیزیں چاہئے تھیں ،تو وہ بناکر دیں، اب............ وہ اسے طویل گفتگو سے روکتے ہوئے ہاتھ بڑھاکر ٹھنڈی میٹھی لسی کا گلاس پکڑتے ہوئے کہا کہ اور اب فوراً تم کسی اور کام کیلئے چلی جاؤ گی۔
وہ بولی ، ہماری تو زندگی آپ لوگوں کی خدمت کیلئے وقف ہے۔ میرے بڑوں نے بھی آپ کے بڑوں کی خدمت کی اور مجھے بھی یہی کرنا ہے۔ وہ گلاس خالی کرکے واپس کرتے ہوئے بولا کہ اگر تم چاہتی ہو کہ میں اس دنیا میں زندہ رہوں تو جو میں نے کہا ہے ،وہ کرو۔ وہ گڑگڑانے لگی، نہ سائیں جی، ایسا نہ کریں، ہم اور آپ لوگوں میں بہت فرق ہے، آسمان اور زمین جیسا۔ پھر آپ تو اس بڑے خاندان کے واحد چشم و چراغ ہیں، 5 بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ اب تو بڑے سائیں کے گزر جانے کے بعد آپ کی تاجپوشی کی جائے گی۔ ہمارا کیا ہے، ہم ہیں غریب لوگ جو زمین سے اپنی وفا نبھاتے ہیں ، زندگی میں زمین کے اوپر اور موت کے بعد زمین کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ وہ بولا کتنی بڑی اور عجیب باتیں کرتی ہو، یہ بتاؤکہ ایسی باتیں کہاں سے سیکھتی ہو؟ وہ افسردگی سے مسکرائی، سائیں جی! زندگی کی سختی خود بخود سکھا دیتی ہے۔ وہ جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ،کل کوئی اچھا سا جوڑا پہن کر میرا یہ تحفہ پہن کر صبح کا سلام بڑی بی بی کو کرنے آنا۔ وہ ہکلانے لگی، بہت مشکل میں ڈال رہے ہیں سائیں، وہ اتنی قیمتی چیز دیکھیں گی تو ضرور سوال کریں گی۔ وہ لاتعلقی سے کہنے لگا، ضرور پوچھیں گی یہ تو ہماری خاندانی چیز ہے جو بہو کو دی جاتی ہے ۔جب تمہیں پہنے دیکھیں گی تو فوراً سمجھ جائیں گی کہ میں نے تمہیں کیوں دی ہے۔
بس پھر وہ خود ہماری شادی کروا دیں گی۔ وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی، آسمان اور زمین کبھی ملے ہیں کیا؟ وہ بگڑ کر کہنے لگا، تو پھر ساری زندگی کسی کو قتل کرنے کا غم برداشت کرتے رہنا کیونکہ جب صبح سویرے اسے پہن کر نہ آئیں تو میں اوپر پانچویں منزل سے چھلانگ لگاکر خود کو موت کے حوالے کردونگا۔ پھر تمہاری یہ انا جیت جائے گی ،چاہے میں زندگی کیوں نہ ہار دوںاور بقول تمہارے اس گھر کا واحد چراغ بجھ ہی کیوں نہ جائے۔ شاید یہی تمہاری اور تمہارے اجداد کی خدمت ہوگی۔ وہ بھاری گلوگیر آواز میں کہتا تیزی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ وہ عجیب سوچ میں گرفتار تھی، ان امیر لوگوں کی لڑکیاں کوئی اسکول نہیں جاتی تھیں لیکن اس نے اپنی تنخواہ کے بدلے اسکول میں داخلہ کروانے کی خواہش کی تھی جو اسکی خوش قسمتی تھی کہ قبول کرلی گئی تھی۔ وہ بیرون ملک تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھا اور جہاں تک اسکی معلومات تھیں، کسی نوکرانی نے بتایا تھا کہ وہ کسی ہم جماعت کو پسند کرتا ہے لیکن غیر مسلم ہونے کی وجہ سے بڑی بی بی نہیں مانتی تھیں اورکہتی تھیںکہ یہیں خاندان میں شادی کرو۔ اب وہ کہتا ہے کہ چند دنوں میںوہ اتنا پسند کرنے لگا ہے کہ کہتا ہے تم اس گھر میں بہو بن کر آؤ گی ورنہ میں جان سے گزر جاؤں گا۔
وہ ذہین لڑکی تھی، بچپن سے ہی پڑھنے اور گھر کے کامو ں میں ذہانت کے باعث الگ پہچان رکھتی تھی اور اسکی شہابی رنگت بتاتی تھی کہ اسکے والدین ضرور کسی اچھے خاندان کے فرد رہے ہونگے کیونکہ مورثی خوبیاں تو ضرور انسان میں موجود ہوتی ہیں۔ اگرچہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے چکی تھی لیکن گھر والوں کو صرف اتنی ہی خبر تھی کہ اسکی تعلیم کا خرچہ پہلے سے بڑھ گیا ہے لیکن چونکہ اس گھرانے کاکسی تعلیمی ادارے سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا تو معلومات بھی کسی کو نہ تھی۔ وہ لوگ تو صرف امیر انہ ٹھاٹ باٹ میں زندگی گزاررہے تھے اور وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ کچھ ترقی یافتہ امیروں والی خوبی پیدا کرنے کیلئے خاندان کے واحد چشم و چراغ کو بھاری فیس والی باہر کی ڈگری دلا دی جائے تاکہ اونچے خاندان کا صغرالہ سجایا جاسکے۔ والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے کوارٹر میں اکیلی رہتی تھی مگر چونکہ خاص خادمہ کی حیثیت رکھتی تھی، اس لئے سب کی مشیر بھی وہی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اسکی تعلیم نے اسے سب سے جداگانہ حیثیت دے دی تھی۔
آج کا دن بہت کڑا تھا۔ سخت فیصلے کا دن، اس کو تو قیامت ہی محسوس ہوا جب وہ نئے کپڑے پہنے، خاندانی جھومر ، کان کے بڑے بھاری بالے کے ساتھ پہن کر سلام کرنے پہنچی۔ اس پر سچ مچ قیامت ٹوٹ گئی۔ جیسے ہی برآمدے میں بڑی مسہری پر بیٹھی بڑی بی بی صاحبہ نے اسے اس خاندانی زیور کے ساتھ دیکھا تو تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا، سوائے اسکے کہ اڑتی پڑتی ان کے کانوں میں خبر پہنچی تھی کہ ان کا بیٹا کسی گھر میں موجود کسی کمّی سے شادی کرلے گا۔ غصے سے آگے بڑھ کر انہوں نے دونوں رخساروں پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ جھومراورکانوں کا بالا اتنی قوت سے کھینچا کہ دنوں کان کٹ سے گئے اور خون بھی بہنے لگا۔ انہوں نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ آنگن میں انگشت بداں رہ جانے والی نوکر انیوں پر نظر دوڑائی اور ایک کے ہاتھ میں لکڑی دیکھی جو کسی کام سے لئے جارہی تھی، وہ لکڑی اس پر ایسے برسانا شروع کردی جیسے وہ گوشت پوست کی انسان نہیں بلکہ اینٹ پتھر کی بنی ہو۔ وہ تکلیف سے چیخ رہی تھی، خون بہتا جارہا تھا لیکن نہ وہ خود اپنے آپ کو لکڑی کی مار سے بچا پا رہی تھی اور نہ ہی کسی میں جرأت تھی کہ مارنے والی کا ہاتھ روک دیتا۔ آخر کار وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔انہوں نے حکم دیا کہ اسے اٹھاکر اسکے کوارٹر میں پھینک آؤ۔

شیئر: