اسمبلی سیکریٹیریٹ کی جانب سے جاری بیان میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سے واپس لی جانے والی نشستوں کا بھی پارٹی پوزیشن میں ذکر کیا گیا ہے۔
اس سے قبل 39 اراکین تحریک انصاف اور 41 کو آزاد ڈکلیئر کیا گیا تھا۔
سیکریٹیریٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 110، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم 22، ق لیگ پانچ، آئی پی پی کے چار اراکین ہیں۔ سنی اتحاد کونسل 80، جے یو آئی ف 8، آزاد اراکین کی تعداد بھی 8 ہے۔ پی کے میپ، بی این پی مینگل اور ایم ڈبلیو ایم کی ایک ایک نشست ہے جبکہ ایک آزاد رکن قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔
الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کی صورت میں 23 مخصوص نشستیں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو ملیں گی۔
مسلم لیگ ن 15، پیپلز پارٹی پانچ اور جے یو آئی کو تین مخصوص نشستیں ملیں گی۔
مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے چیف الیکشن کمشنر کو خطوط لکھے تھے جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔
جمعرات کو سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خطوط میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔
یہ خطوط ایسے وقت میں لکھے گئے جب الیکشن کمیشن مسلسل تین روز سے اعلی سطح کا اجلاس منعقد کر رہا ہے جس میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے فیصلے کی وضاحت سے متعلق دائر کی گئی درخواست کے جواب میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی وضاحت پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگست میں الیکشن ایکٹ 2024 میں دو اہم ترامیم شامل کی گئی تھیں۔ پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 میں کی گئی جس کے تحت اسمبلی کا کوئی بھی رکن اپنی سیاسی جماعت کی وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کر سکتا۔ یعنی جب تک آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے وہ اب تحریک انصاف میں جانے کے لیے سرٹیفکیٹ جمع نہیں کروا سکتے جس کے لیے الیکشن کمیشن نے 12 جولائی کے فیصلے میں 15 دن کا وقت دیا تھا۔
دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں کی گئی ہے، جس کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے جماعتوں کو لازمی طور پر مقررہ وقت پر امیدواروں کی فہرست جمع کرانا ہوگی۔
اس شق کا مقصد ہے کہ تحریک انصاف کے پاس چونکہ انتخابی نشان نہیں تھا اور انھوں نے آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل کوئی ترجیحی فہرستیں جمع نہیں کروائی تھیں گویا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ان کی ترجیحی فہرستیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔