Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ملزموں کے سزا سے بچنے کی وجہ کمزور نظام، ناقص تفتیش یا کچھ اور؟

چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ (فوٹو: پی پی میڈیا سیل)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس یحیٰی خان آفریدی کے عہدہ سنبھالنے کے پہلے ماہ کے دوران چار ہزار 372 زیر التوا مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں۔
لیکن ایک ماہ میں اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کا فیصلہ ہونے کے باوجود یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ رواں برس کی ابتدا میں قانون اور انصاف کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 22 لاکھ 60 ہزار مقدمات میں لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں دہائیوں تک مقدمات کا فیصلہ نہ ہونا ایک عام سی بات ہے، اور اس کی وجوہات میں ناقص نظام انصاف، کمزور تفتیش اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم دلچسپی سمیت کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔
قانون اور انصاف کمیشن کی ہی رپورٹ کے مطابق ضلعی سطح پر 10 لاکھ 86 ہزار مقدمات میں فیصلہ نہیں ہو سکا، جن میں 64 فیصد دیوانی اور 36 فیصد فوجداری ہیں۔
’کرپشن کے 90 فیصد مقدمات ثابت نہیں ہوتے‘
قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کے 90 فیصد اور دیگر جرائم میں 10 فیصد ملزم سزا سے بچ جاتے ہیں، کیونکہ ان کے خلاف مقدمات اور لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو پاتے۔
مختلف اقسام کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل اسامہ ملک بتاتے ہیں کہ پاکستان میں جنسی جرائم کے مقدمات میں ملزمان کے سزا پانے کی شرح درج ہونے والے مقدمات کا تقریباً دو فیصد ہے، جبکہ کئی دیگر مقدمات جیسے لاپرواہی سے گاڑی چلانے کے واقعات میں موت یا سنگین چوٹ کے ساتھ ساتھ منشیات کے زیرِ اثر گاڑی چلانے میں سزا کا تناسب اس سے بھی کم ہے۔ اور یہ اس  کے باوجود ہے کہ جرائم کی بہت کم تعداد درحقیقت پولیس کو رپورٹ کی جاتی ہے۔
لاکھوں مقدمات میں ملزموں کو سزا نہ ملنا اب پاکستان میں اعلٰی حکام کو بھی پریشان کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ عسکری حکام بھی متعدد بار 9 مئی کے واقعات کے مبینہ ملزمان کو سزا جلد نہ ملنے اور ان کے مقدمات کے التوا پر ملک میں رائج نظام انصاف پر سوال اٹھا چکے ہیں۔

راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ ملزمان کو سزا نہ ملنے کی بڑی وجہ مقدمات کی ابتدائی رپورٹ غلط بنانا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کی وفاقی حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اور اس کے اسباب تک پہنچنے اور ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کا تعین کر رہی ہے۔
اس کے لیے مستند محققین پر مشتمل ایک ٹیم ترتیب دی گئی ہے، جو گزشتہ کئی ماہ سے ان پہلوؤں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے رہی ہے جو مجرموں کو سزا سے بچاتے ہیں۔
یہ تحقیقی منصوبہ قومی پولیس بیورو کے تحت کام کر رہا ہے، اور اس میں شامل ماہرین اگلے سال کے وسط تک ان وجوہات کی نشاندہی اور تفتیش کا معیار بہتر بنانے کے لیے اپنی تجاویز مرتب کریں گے۔
حکام کے مطابق تحقیقاتی ماہرین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں جائزہ لیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں مقدمات سالہا سال چلتے ہیں، اور اس کے بعد بھی بیشتر ملزمان بری ہو جاتے ہیں، اور پراسیکیوشن مقدمات ثابت نہیں کر سکتا۔
ماہرین جو وزارت داخلہ اور قومی پولیس بیورو کی مدد سے اپنی تحقیق کا ابتدائی مرحلہ مکمل کر چکے ہیں ملک بھر میں تھانوں، پولیس کے تفتیشی افسران، ضلعی پراسیکیوٹرز اورلا آفیسرز کے ساتھ مل کر زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں اور ان کے مسائل اور کمزوریوں کو جائزہ لے رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی ملک میں رائج تفتیش اور پراسیکیوشن کے نظام میں تبدیلیاں لانے کے بارے میں سفارشات تیار کی جائیں گی۔

سپریم کورٹ میں ایک ماہ کے دوران چار ہزار 372 زیر التوا مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’نااہل اور جانبدار تفتیشی افسر‘
تاہم راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ ملزمان کو سزا نہ ملنے کی بڑی وجہ مقدمات کی ابتدائی رپورٹ غلط بنانا ہے، اور اگر حکومت واقعی یہ مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے، تو اس کو تفتیشی افسران کی جدید خطوط پر تربیت کے ساتھ تفتیشی نظام میں انصاف بھی یقینی بنانا پڑے گا۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں ملزموں کے سزا سے بچ جانے کی بڑی وجوہات میں تفتیش میں خامیاں، پولیس کے گواہ بھاگ جانا، پراسیکیوشن کا نااہل ہونا اور ملزمان کی تعداد کو جان بوجھ کر غیرضروری طور پر بڑھا دینا شامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک اور بڑی وجہ استغاثہ کا مخالف فریق کا دوست بن جانا ہے کیونکہ بیشتر مقدمات میں سرکاری وکیل دوسرے فریق کو فائدہ پہنچانے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اگر واقعی یہ مسئلہ حل کرنا ہے تو پھر تفتیشی افسران کی اعلٰی تعلیم اور تربیت کے ساتھ ان کی نگرانی کا نظام بھی وضع کرنا پڑے گا کیونکہ جب تک تفتیشی افسران ایماندار اور مہارت یافتہ نہیں ہوں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔‘
اس کے علاوہ تفتیشی افسران کی سزا و جزا کو بھی ان کے حل کیے گئے مقدمات کے تناسب سے منسلک کرنا چاہیے کیونکہ جب تک انہیں یہ احساس نہیں ہو گا کہ کسی مقدمے کو ثابت کرنے میں ناکامی ان کے کیریئر پر اثر انداز ہو سکتی ہے تب تک وہ اس پر مکمل غیر جانبداری اور دیانتداری سے کام نہیں کریں گے۔

’کرپشن کے 90 فیصد اور دیگر جرائم میں 10 فیصد ملزم سزا سے بچ جاتے ہیں۔‘ (فوٹو: فری پکس)

’ڈینئیل پرل قتل کے ملزمان کی بریت، پاکستان میں ناقص تفتیش کی بہترین مثال‘
اسامہ ملک کہتے ہیں کہ ایسے جرائم تو ایک طرف جن میں تفتیش مشکل ہوتی ہے لیکن ایسے جرائم میں بھی مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں جس میں وہ گرفتار ہوتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ مضبوط ہوتا ہے۔
’اس کی ایک بہترین مثال  ڈینیئل پرل کا قتل ہے۔ اس مقدمے میں نچلی ترین عدالت نے قتل اور اغوا دونوں کے جرم میں سزا سنائی، 18 سال بعد ہائی کورٹ نے ملزمان کو قتل کے الزام سے بری کر دیا، لیکن اغوا کی سزا برقرار رکھی، جب کہ سپریم کورٹ نے انہیں اغوا کے معاملے میں بھی صرف اس لیے بری کر دیا کہ ابتدائی تفتیش میں بہت سی خامیاں ہیں۔‘
اسامہ ملک کہتے ہیں کہ دیگر تفتیشی عوامل تو ایک طرف پاکستان میں فرانزک کا کام بھی بہت ناقص ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت سائنسی کام ہے اور ملک کے ہر شہر میں فرانزک لیبارٹریاں نہ ہونے سے بھی تفتیش ناقص ہوتی ہے اور ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔

شیئر: