Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سولر پینل اور بیٹریوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سکریپ کی آڑ میں بیٹریوں کی سمگلنگ؟

ایک طرف پاکستان میں سولر پینل اور سولر بیٹریوں کی قیمتوں میں مسلسل کمی آرہی ہے تو دوسری جانب حال ہی میں کراچی میں پاکستان کسٹمز نے سکریب کی آڑ میں کروڑوں روپے قابل استعمال سولر بیٹریاں سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔
پاکستان میں سولر بیٹریوں کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتوں کی ایک وجہ بڑی تعداد میں قابل استعال بیٹریوں کی سکریپ کی آڑ سمگل کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم سولر مارکیٹ میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی کمی میں بیٹریوں کی سمگلنگ کا کردار محدود ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے آئی سی آئی پل کے قریب کچھ ٹرک معمول کے مطابق گزر رہے تھے، ان ٹرکوں پر کنٹینرز لوڈ تھے، اچانک کچھ گاڑیاں آتی ہیں اور ٹرکوں کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
ٹرک ڈرائیوروں نے سرکاری گاڑیاں دیکھتے ہی فوراً ٹرکوں کو روک لیا۔ جیسے ہی تمام ٹرک رکے، سرکاری گاڑیوں میں سوار افراد اپنی گاڑیوں سے اترے اور ٹرک ڈرائیورز کے پاس پہنچے، اور انہیں کہا کہ گاڑی بند کرکے نیچے آجائیں۔
 ڈرائیورز جب اپنی گاڑیاں بند کرکے ٹرک سے نیچے اترے، تو گاڑی روکنے والوں نے ڈرائیورز کو بتایا کہ وہ محکمہ کسٹمز کے اہلکار ہیں، انہیں ان ٹرکوں کی تلاشی لینی ہے۔
ٹرک ڈرائیور نے کسٹمز حکام کو بتایا کہ کنٹینر سیل ہیں، وہ اپنی کمپنی کو بتائے بغیر کنٹینرز نہیں کھول سکتے۔
اس دوران ایک ڈرائیور نے کسٹمز حکام کو بتایا کہ ان کنٹینرز کو کلیئر کروانے والی کمپنی کا ایک فرد ان کے ساتھ موجود ہے۔ اس فرد کو بلایا گیا اور کنٹینرز میں موجود مال کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی، کلیئرنگ ایجنٹ کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر کسٹمز اہلکاروں نے ٹرک روکنے کا فیصلہ کیا۔
اس دوران پورٹ سے نکلنے والے 8 ٹرکوں میں سے ایک ٹرک ڈرائیور اس قافلے میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے کسٹمز حکام کے ہاتھ نہ آسکا۔
ترجمان محکمہ کسٹمز سید عرفان علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی خفیہ اطلاع کے بعد یہ کارروائی کی گئی، جس میں ایک بڑی سمگلنگ کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ کو اطلاع ملی کہ بیٹری سکریپ کی آڑ میں قابل استعمال بیٹریاں سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
ڈپٹی کلکٹر سید محمد رضا نقوی کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل سے نکلنے والے کنٹینرز پر گہری نظر رکھی۔

محمد سفی کے مطابق یہ کہنا کہ سمگل شدہ مال مارکیٹ میں ہے اس لیے مارکیٹ میں قیمتیں کم ہورہی ہیں درست نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ترجمان کسٹمز کے مطابق ٹیم نے ویسٹ وارف روڈ پر آئی سی آئی پل کے قریب 8 کنٹینرز پر مشتمل کھیپ کو روکا۔ یہ کھیپ عبدالعزیز ساول کلیئرنگ ایجنسی کے سینئر مینیجر شیخ فرید کے زیر نگرانی تھی، جو اس بات پر بضد تھے کہ یہ کنٹینرز بیٹری سکریپ پر مشتمل ہیں۔
شیخ فرید نے گرین چینل سے کلیئر شدہ تین گڈز ڈیکلریشنز پیش کیں، لیکن موقع پر صرف 7 کنٹینرز موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ آٹھواں کنٹینر پہلے ہی نادرن بائی پاس پر واقع سینچری انجینئرنگ کے گودام منتقل کیا جا چکا ہے۔ ٹیم نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 7 کنٹینرز کو اپنی تحویل میں لیا اور انہیں ماری پور میں کسٹمز کے گودام منتقل کر دیا۔ بعد ازاں، شیخ فرید کی نشاندہی پر گودام پر چھاپہ مارا گیا اور آٹھواں کنٹینر بھی ضبط کر لیا گیا۔

سولر سسٹم میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی قیمت کم ہونے کی وجہ کیا سمگل شدہ بیڑیاں ہیں؟

کراچی سولر گلی میں کام کرنے والے تاجروں کے مطابق گذشتہ کچھ ماہ سے مارکیٹ میں ناصرف سولر پینل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے بلکہ سولر سسٹم میں استعمال ہونے والے دیگر سامان کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
سولر سسٹم لگانے والے تاجر محمد صفی کے مطابق مارکیٹ میں سولر پینل، انورٹر یا بیٹریوں کی قیمتوں میں کمی کو عالمی مارکیٹ سے جوڑا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کچھ عرصے سے ڈالر کا ریٹ بھی مستحکم ہے اس لیے اب سولر سسٹم کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
محمد صفی کے مطابق یہ کہنا کہ سمگل شدہ مال مارکیٹ میں ہے اس لیے مارکیٹ میں قیمتیں کم ہورہی ہیں درست نہیں۔ ’ہاں البتہ اس کا کچھ اثر ضرور مارکیٹ پر پڑتا ہے لیکن وہ اتنا بڑا شیئر نہیں کہ مارکیٹ پر اثر انداز ہوسکے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اب پاکستان میں چین کی مدد سے بہت سی کمپنیاں کام کررہی ہیں، جو ناصرف انورٹرز بنا رہی ہیں، بلکہ بیڑیاں بھی اب پاکستان میں ہی تیار کی جارہی ہیں۔ مقامی سطح پر بیڑیوں کی پیداوار ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں بیڑیوں کی قیمتیں کچھ کم ہوئی ہیں۔

ترجمان محکمہ کسٹمز کے مطابق درآمد شدہ بیٹریوں کی مالیت 13 کروڑ 49 لاکھ 60 ہزار روپے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ان کا کہنا تھا کہ مقامی مارکیٹ میں سولر سسٹم لگانے والے استعمال شدہ سامان کے مقابلے میں نیا سامان لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے استعمال شدہ بیڑیوں کی مارکیٹ میں مانگ بھی کم ہے۔ 
کسٹمز حکام کے مطابق ماری پور گودام میں تفصیلی جانچ پڑتال کے دوران، کنٹینرز سے 6748 بیٹریاں برآمد ہوئیں جو بظاہر پرانی لیکن قابل استعمال تھیں۔
یہ بیٹریاں بیٹری سکریپ کے طور پر ظاہر کی گئی تھیں، لیکن لیبارٹری ٹیسٹ نے ان کے قابل استعمال ہونے کی تصدیق کر دی۔
ترجمان محکمہ کسٹمز کے مطابق درآمد شدہ بیٹریوں کی مالیت 13 کروڑ 49 لاکھ 60 ہزار روپے جبکہ 8 کنٹینرز کی مالیت 40 لاکھ روپے تھی، جس سے کل مالیت تقریباً 13 کروڑ 89 لاکھ 60 ہزار روپے بنتی ہے۔
حکومت پاکستان کی امپورٹ پالیسی کے تحت قابل استعمال پرانی بیٹریوں کی درآمد پر پابندی ہے، لہٰذا ان بیٹریوں کو ضبط کر کے امپورٹر اور کلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

شیئر: