دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مون سون کا موسم آتے ہی سانپوں کا اپنے بلوں سے باہر نکل کر شہری علاقوں کا رُخ کرنا ایک معمول ہے۔ جیسے ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، سانپ نہ صرف دیہات بلکہ شہری علاقوں اور گھروں میں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
یہ صورتِ حال نہ صرف شہریوں میں خوف کا باعث بنتی ہے بلکہ بعض اوقات سانپ کے ڈسنے سے اموات بھی ہوتی ہیں۔ لیکن کیا واقعی مون سون ہی اس کی وجہ ہے یا اس کے پیچھے دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے ان ماہرین سے بات کی جو برسوں سے وائلڈ لائف کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے سانپ اپنے بِل چھوڑ کر باہر آتے ہیں لیکن عبدالرحمان اس خیال کو جُزوی طور پر درست قرار دیتے ہیں۔
عبدالرحمان بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں اور گذشتہ 13 برس سے سانپوں کی مختلف نسلوں پر تحقیق اور آگاہی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سانپ اپنے بل نہیں بناتے بلکہ وہ کسی اور کے بل پر قبضہ کرتے ہیں۔
’مون سون بلاوجہ بدنام ہے۔ جب گرمی آتی ہے، زمین تپنے لگتی ہے تو سانپ اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلتے ہیں۔ بارشوں کا پانی جب بلوں میں بھر جاتا ہے تو سانپوں کے لیے وہاں رہنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے تب بھی وہ باہر نکلتے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’سانپ کبھی اپنے بل خود نہیں بناتے۔ سانپ دوسروں کے بنائے ہوئے بلوں، جیسے کہ چوہوں کے بلوں پر عارضی طور پر قبضہ کرتے ہیں۔ جیسے ہی پانی ان بلوں میں داخل ہوتا ہے سانپ باہر نکل آتے ہیں۔‘
محمد طلحہ بھٹی تین برس سے اسلام آباد وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بطور رضاکار سانپوں کو ریسکیو کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں اس رجحان کی وجوہات، سانپوں کی عادات، اور اُن سے بچاؤ کے طریقوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

محمد طلحہ بھٹی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’گرمی کا موسم سانپوں کے لیے افزائش کا وقت ہوتا ہے۔ گرمیوں میں سانپوں کی خوراک کی طلب بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ان کا بریڈنگ سیزن ہوتا ہے۔ چوہے، مینڈک اور دیگر چھوٹے جانور جو بارشوں کے بعد کھلے مقامات پر آتے ہیں، سانپوں کی خوراک ہوتے ہیں تو سانپ ان کا پیچھا کرتے ہیں۔‘
انسانی آبادیوں میں سانپوں کی آمد کی بنیادی وجہ گھروں کا ماحول ہے۔ اس حوالے سے عبدالرحمان بتاتے ہیں کہ ’گھر سانپوں کے لیے مثالی جگہ ہوتے ہیں۔ یہاں درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے۔ چُھپنے کی جگہیں ملتی ہیں اور خوراک کی تلاش میں آنے والے چوہے انہیں یہاں کھینچ لاتے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’گھروں میں اناج کا ذخیرہ چوہوں کو راغب کرتا ہے اور چوہے سانپوں کو۔ یوں جب سانپ اپنی خوراک کھا لیتے ہیں تو وہ گھروں میں ہی کہیں چُھپ جاتے ہیں۔‘
طلحہ بھٹی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’سانپوں کی آمد کا تعلق گھروں کے اردگرد کے ماحول سے بھی ہے۔‘
’گھر کے باہر اگر اینٹیں، کباڑ، لمبی گھاس یا پانی کھڑا ہو تو یہ سانپوں کے لیے چُھپنے کی بہترین جگہیں ہیں۔ ان چیزوں کو اگر صاف رکھا جائے تو سانپوں کی آمد کو روکا جا سکتا ہے۔‘
دونوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سانپوں سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بہت ضروری ہیں۔
عبدالرحمان کی رائے ہے کہ ’اکثر گھروں کے دروازوں کے نیچے درزیں ہوتی ہے جہاں سے سانپ گھروں میں آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیوریج کے پائپ، کباڑ، لکڑیوں کے ڈھیر یا لمبی گھاس بھی سانپوں کو راغب کرتی ہے۔‘

وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’گھروں کے اردگرد صفائی کا خاص خیال رکھا جائے اور دروازوں کے نیچے درزوں کو بند کیا جائے۔‘
طلحہ بھٹی اسے مزید آسان بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سانپوں کا کھانا ختم کریں، سانپ نہیں آئیں گے۔ گھر کے باہر گندگی نہ رکھیں، چُوہوں کو آنے سے روکیں اور چُھپنے کی جگہوں کو ختم کریں۔‘
گھر میں اگر سانپ آجائیں تو اس صورت میں فوری عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ اکثر لوگ گھریلو یا دیسی ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
عبدالرحمان کا خیال ہے کہ ’دیسی طریقوں سے پرہیز کریں۔ لوگ کاٹنے کی جگہ پر کٹ لگاتے ہیں یا اسے باندھ دیتے ہیں جو کہ بہت خطرناک ہے۔ ایسے وقت میں ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے۔ فوراً سرکاری ہسپتال کا رُخ کریں جہاں اینٹی وینم موجود ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق پنجاب کے تمام ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو ہسپتالوں میں اینٹی وینم کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔
طلحہ بھٹی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ سانپ زہریلا ہے یا غیر زہریلا۔ غیر زہریلے سانپ کے کاٹنے پر اینٹی وینم کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن زہریلے سانپ کے کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر ہسپتال جانا ضروری ہے۔‘
’پاکستان میں چار قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں کوبرا، کریٹ، اور رسل وائپر شامل ہیں اور ان کے لیے اینٹی وینم ہسپتالوں میں موجود ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں زہریلے اور غیر زہریلے دونوں قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ زہریلے سانپوں میں کوبرا، کریٹ اور رسل وائپر شامل ہیں جبکہ غیر زہریلے سانپوں میں دھامن اور رائل ریٹ سنیک وغیرہ ہیں۔ یہ سب گرمیوں اور مون سون کے دوران زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔
عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ’سانپ کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتے۔ وہ مسلسل حرکت میں رہتے ہیں اور خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا گھروں میں آنا کوئی انہونی بات نہیں۔‘
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سانپوں سے متعلق آگاہی بہت ضروری ہے۔ عبدالرحمان بتاتے ہیں کہ ’لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سانپ بلاوجہ حملہ نہیں کرتے۔ وہ خوف یا خطرہ محسوس کرنے پر ہی کاٹتے ہیں۔‘
ان کے مطابق سانپوں سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ لوگ خوفزدہ ہو کر سانپوں کو مار دیتے ہیں حالانکہ غیر زہریلے سانپ ماحول کے لیے مفید ہوتے ہیں۔