Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی بندرگاہ پر دھماکے میں ہلاکتیں 28 ہو گئیں، آگ نہ بجھ سکی

بندرگاہ کے کسٹم آفس نے ایک بیان میں کہا کہ ممکنہ طور پر دھماکہ خطرناک اور کیمیائی مواد کے ذخیرہ کرنے والے ڈپو میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کی سب سے بڑی کمرشل بندرگاہ پر ایک بہت بڑے دھماکے کے بعد لگنے والی آگ 24 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے بعد بھی نہیں بجھ سکی۔
ریڈ کریسنٹ کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 1000 سے زائد ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ دھماکہ سنیچر کو جنوبی ایران میں شہید رجائی بندرگاہ پر ہوا۔ یہ بندرگاہ آبنائے ہرمز کے قریب ہے اور یہاں سے عالمی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے۔
بندرگاہ کے کسٹم آفس نے سرکاری ٹیلی ویژن کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ممکنہ طور پر دھماکہ خطرناک اور کیمیائی مواد کے ذخیرہ کرنے والے ڈپو میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہوا۔
دوسری جانب امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے پاسداران انقلاب فورس سے تعلق رکھنے والے ایک سورس کا حوالہ دیا ہے جس نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس دھماکے کی تفصیل بتائی۔
سورس کے مطابق ’دھماکہ سوڈیم پرکلوریٹ پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا، جو کہ میزائلوں میں استمعال ہونے والے ٹھوس ایندھن کا اہم جزور ہے۔‘
ایران کی نیوز ایجنسی تسنیم کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے سربراہ نے تازہ اپ ڈیٹ میں بتایا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 28 ہو گئی ہے اور 1000 سے زائد زخمی ہیں۔
اتوار کو دھماکے کے مقام کی سامنے آنے والی براہ راست فوٹیج میں دھوئیں کے گہرے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب چین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دھماکے میں اس کے تین باشندے ’معمولی زخمی‘ ہوئے ہیں۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ 50 کلومیٹر کے فاصلے پر بھی سنا گیا۔
اسی طرح ارنا نیوز ایجنسی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مبلے کے ڈھیروں کے قریب امدادی ٹیمیں لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سرکاری ٹی وی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سینکڑوں زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے اور صوبائی حکام نے لوگوں کو خون کے عطیات دینے کی بھی درخواست کی ہے۔
علاوہ ازیں ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے متاثر کے اظہار ہمدردری کیا ہے۔

ایرانی کا کہنا ہے کہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سنیچر کو دھماکے کے مقام کے قریب سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ سکندر مومینی کا کہنا تھا کہ ’دیگر شہروں سے بھی وسائل منگوائے جا رہے ہیں۔‘
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ دھماکہ بندر عباس سے جڑی شہید رجائی بندرگاہ پر ہوا جو اسلامی جمہوریہ کے لیے کنٹینرز کی ترسیل کا کام کرتی ہے اور سال میں تقریباً 80 ملین ٹن (72.5 ملین میٹرک ٹن) سامان کو ہینڈل کرتی ہے۔
ایران میں کسی نے بھی واضح طور پر یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ دھماکہ کسی حملے یا تخریب کاری کے نتیجے میں ہوا ہے۔
مبینہ طور بندرگارہ پر میزائل ایندھن کے لیے کیمیکل اُتارا گیا تھا۔
دھماکے کے گھنٹوں بعد تک ایران میں حکام نے اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی تھی کہ بندر عباس قریب بندرگاہ پر اس تباہی کی وجہ کیا بنی۔ تاہم حکام نے اس بات کی تردید کی کہ اس دھماکے کا ملک کی تیل کی صنعت سے کوئی تعلق ہے۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی تعاد 800 کے قریب ہے (فوٹو:اے ایف پی)

تاہم نجی سکیورٹی فرم امبرے کے مطابق بندرگاہ پر مارچ میں ’سوڈیم پرکلوریٹ راکٹ ایندھن‘ کی کھیپ اتاری گئی تھی۔ یہ ایندھن چین سے دو جہازوں کے ذریعے ایران کو بھیجی جانے والی کھیپ کا حصہ ہے۔
یہ ایندھن ایران کے میزائلوں میں استعمال کیا جائے گا جو غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ جنگ ​​کے دوران اسرائیل پر براہ راست حملوں سے ختم ہو گیا تھا۔
سکیورٹی فرم امبرے نے کہا کہ آگ مبینہ طور پر ایرانی بیلسٹک میزائلوں میں استعمال کے لیے ٹھوس ایندھن کی کھیپ کو غلط طریقے سے ذخیرہ کرنے کی وجہ سے پھیلی۔
 شہید رجائی پورٹ ایران کے دارالحکومت تہران سے ایک ہزار کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے جبکہ صوبہ ہرمزگان میں بڑے بحری جہازوں سے کنٹینرز کو ہینڈل کرنے والی جدید ترین بندرگاہ سمجھی جاتی ہے۔
ارنا نیوز ایجنسی کے مطابق یہ بندرگاہ عباس کے جنوب میں 23 کلومیٹر کے فاصلے پر آبنائے ہرمز میں واقع ہے جہاں سے دنیا کے تیل کا پانچوں حصہ گزرتا ہے۔

شیئر: