Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیجیٹل میڈیا: زندگی کا یہ نیا فیز کیسا رہا؟ عامر خاکوانی کا کالم

ورک فرام ہوم ایک نئی انداز کی لگژری ہے اور ایک ذمہ داری بھی۔ (فائل فوٹو: پکسابے)
تین مئی سنیچر کو صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سی پوسٹیں، تحریریں دیکھنے کو ملیں۔ ان میں سے کچھ صحافیوں کی زندگیوں اور مشکل اوقات کے حوالے سے بھی تھیں۔ میڈیا میں جو مسائل اور مالی مشکلات آ چکی ہیں، ان پر بھی کئی صحافیوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔
میں یہ سوچتا رہا کہ میری آدھی سے زیادہ زندگی صحافت میں بسر ہو گئی، اب جبکہ عمر کی نصف سینچری مکمل ہو چکی، صحافت کا ایک نیا پیٹرن اور نیا انداز اپنانا پڑ رہا ہے۔ فری لانس جرنلزم، ڈیجیٹل میڈیا کے لیے گھر سے لکھ کر بھجوانا یعنی ورک فرام ہوم۔
میرے صحافتی کیریئر کا آغاز چھ فروری 1996 کو لاہور کے ایک معروف ماہانہ ڈائجسٹ سے ہوا، اس کے ڈھائی تین برس بعد روزنامہ صحافت کا رخ کیا۔ اس لحاظ سے کوئی تین عشرے ہونے والے ہیں۔
28، 29 برس چار بڑے اخبارات اور ایک میگزین میں کام کرنے کے بعد میں گذشتہ سات ماہ سے بطور فری لانس جرنلسٹ کام کر رہا ہوں۔
ورک فرام ہوم ایک نئی انداز کی لگژری ہے اور ایک ذمہ داری بھی۔
لگژری یوں کہ وقت کی طنابیں بہت بار آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ کسی حد تک اپنی مرضی سے معمولات زندگی بنائے جا سکتے ہیں۔ اب سے پہلے زندگی میں کبھی یہ تجربہ نہیں ہوا تھا کہ دفتر کے دنوں میں دوپہر کو سویا جا سکے۔ قیلولہ کرنا ہمیشہ سے مجھے بڑی عیاشی لگی۔
اپنے کیریئر کے ابتدائی زمانے میں جس ڈائجسٹ کے لیے کام کرتا تھا، اس کے مدیراعلٰی کی رہائش دفتر کے اوپر والی منزل میں تھی۔ وہ دوپہر کو ظہر کی نماز پڑھ کر اوپر چلے جاتے اور گھنٹہ بھر کے قیلولہ کے بعد تازہ دم ہو کر نیچے تشریف لاتے۔ اس دوران ہم قریبی تنور یا ہوٹل سے دوپہر کا کھانا کھا کر جھلسا دینے والی گرمی میں اپنے چھوٹے کیبن نما کمرے میں گرم ہوا پھینکتے پنکھے کے نیچے بیٹھے اونگھ رہے ہوتے۔ نماز عصر کے وقت اپنے سے 30، 40 برس بڑے چیف ایڈیٹر صاحب کو تروتازہ دیکھ کر رشک آتا۔ وہ اپنی اس فریش نیس کا کریڈٹ ہمیشہ اپنے قیلولہ کو دیا کرتے۔
کئی برس قبل مستنصر حسین تارڑ کا سنڈے میگزین کے لیے انٹرویو کیا۔ تارڑ صاحب نے بتایا کہ میں نے اپنی مصروفیت کو اپنے تخلیقی موڈ اور ذہنی مستعدی کے اوقات کے حساب سے ترتیب دے رکھا ہے۔ کہنے لگے کہ وہ صبح فجر کے وقت اٹھ کر روزانہ سیر کرنے ضرور جاتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن پارک میں وہ روز جایا کرتے۔ وہاں ان کا ایک حلقہ احباب بھی بن گیا جو ان کا انتظار کرتا۔ واک کے بعد وہ گھر لوٹتے، چائے اور ہلکا ناشتہ کر کے صبح ہی سے لکھنا شروع کر دیتے۔ دوپہر کو کچھ دیر سوتے اور پھر سہ پہر کو کام کرتے۔

گارشیا مارکیز کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ روز صبح اٹھ کر گھر کے اوپر والے پورشن میں چلا جاتا، جہاں وہ ہر روز کئی گھنٹے اپنی سٹڈی میں بیٹھ کر لکھا کرتا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بعد میں کہیں نوبیل انعام یافتہ لاطینی امریکی ادیب گارشیا مارکیز کے طویل ادبی انٹرویو ’امرود کی مہک‘ کو پڑھا تو مارکیز کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ روز صبح اٹھ کر گھر کے اوپر والے پورشن میں چلا جاتا، جہاں وہ ہر روز کئی گھنٹے اپنی سٹڈی میں بیٹھ کر لکھا کرتا۔ تین بجے نیچے آتا اور پھر بقیہ دن آرام سے لکھنے پڑھنے کے علاوہ دیگر مصروفیات، دوستوں سے گپ شپ، شام کو کسی کیفے وغیرہ میں چلا جاتا۔
یہ پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے اگلے روز خاکسار نے خود کو مبارک باد پیش کی کہ اپنے ابتدائی دنوں قیلولہ کرنے کی حسرت کا اب مداوا ہو رہا ہے۔ ہم تارڑ صاحب اور گارشیا مارکیز کی طرح لکھ تو نہیں سکتے، مگر ان کے معمولات زندگی کو شعوری، لاشعوری طور پر دہرا ضرور رہے ہیں۔
ان اوقات کا اندازہ ہو گیا ہے جب زیادہ بہتر فوکس کے ساتھ چیزیں پڑھی اور لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اگر وقت پر کام مکمل کر لیا جائے تو قیلولہ کرنے سے ہمیں ظالم سماج بھی نہیں روک سکتا۔
اخبار کے دفتر کا یہ بڑا فائدہ ضرور تھا کہ آپ دفتر چلے گئے، وہاں اپنے کمرے میں بیٹھے اور پھر کام کا ماحول ازخود بنتا چلا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی طبعیت ٹھیک نہ ہوتی یا کسی وجہ سے شدید تھکن طاری ہوتی، مگر جب دفتر میں اپنی میز پر جا کر بیٹھتا، سب کچھ پیچھے رہ جاتا۔ یوں جیسے کسی نئی دنیا میں پہنچ گیا۔ پھر اگلے کئی گھنٹوں تک پوری دل جمعی کے ساتھ کام کیا جاتا، حتیٰ کہ گھر والے فون کر کے طبعیت کا پوچھتے، تب خیال آتا کہ ہاں، مجھے تو آج بخار تھا۔

’ڈیجیٹل میڈیا پر بھی ایڈیٹر موجود ہے، چیف ایڈیٹر بھی۔ وہاں پالیسی ہے، ذمہ دارانہ جرنلزم ہے۔‘ (فائل فوٹو: کالج آف سینٹرل فلوریڈا)

اس کے برعکس گھر میں بے شک آپ نے ایک کونے میں میز جما رکھی ہو، پورا موڈ بنا کر کام کر رہے ہوں، اہل خانہ پورا تعاون کریں، لکھتے وقت تنگ نہ کریں، تب بھی سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ دن میں جو مہمان گھر آئیں، اپنے کام والے کمرے سے باہر آ کر انہیں اگر نہ ملا جائے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید جان بوجھ کر روٹھا بیٹھا ہے، نہیں آیا۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ صحافی صاحب اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھانے میں جتے ہیں اور انہیں کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں۔
ایک کلاسیکل قسم کی بات جو پہلے لطیفوں کی شکل میں سنی تھی، وہ اب حقیقت سے قریب نظر آئی، وہ یہ کہ گھر میں بیٹھے ہوں تو اچانک سے پتہ چلتا ہے کہ دہی لینے جانا ہے یا بیرون شہر سے مہمان اچانک آ رہے ہیں اور ان کے کھانے کے لیے کچھ چیزیں فوری طور پر لینی ہیں۔
پہلے دفتر میں ہوا کرتے تھے تو کبھی اس کی فکر ہی نہیں کی۔ نہ کسی نے ہمیں کچھ کہا اور نہ ہی ہم نے استفسار کیا۔ اب گھر بیٹھے ہیں تو یہ سب امور بھی نپٹانے ہی پڑتے ہیں۔
ایک چیز البتہ اخبارات کی طرح ہے، وہ ایڈیٹر کی شخصیت ہے۔ سوشل میڈیا پر آپ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔ جو جی چاہا جڑ دیا۔ اخبار کی طرح مگر ڈیجیٹل میڈیا پر بھی ایڈیٹر موجود ہے، چیف ایڈیٹر بھی۔ وہاں پالیسی ہے، ذمہ دارانہ جرنلزم ہے۔

’یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اگر وقت پر کام مکمل کر لیا جائے تو قیلولہ کرنے سے ظالم سماج بھی نہیں روک سکتا۔‘ (فائل فوٹو: یونیورسٹی آف سنگاپور)

جو کچھ بھی لکھا جائے اس کے ٹھوس ثبوت ہونے ضروری ہیں، کوئی حوالہ دیا ہے تو اسے چیک کرنا لازمی ہے، اسی طرح کسی متنازع موضوع پر لکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہے۔
کاپی رائٹ ایشوز کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مجھے تو یہ اچھا لگا۔ ایڈیٹر کا انسٹی ٹیوشن بہت ضروری ہے۔ مجھے تو یہ اچھا لگتا ہے۔ کوئی ایسا ضرور ہو جو آپ کے کالم پر نظر رکھ سکے، اسے چیک کرے، ایڈٹ کرے اور اگر پالیسی سے متصادم ہے تو اسے واپس بھی کر دے ۔
مجھے اخبارات میں کالم لکھتے 21 برس ہو گئے ہیں۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے۔ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا میں ایک اور فرق یہ محسوس ہوا کہ اخبار میں آپ نے کالم لکھ کر بھیج دیا۔ اب اسے کوئی پڑھتا ہے نہیں پڑھتا، اس کا لکھاری کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ بہت کم اخبارات نے فیڈ بیک کا منظم سسٹم بنا رکھا ہے، زیادہ سے زیادہ وہاں ای پیپر کے کلکس کا پتہ چل سکتا ہے کہ کس نے ای پیپر پر کس کالم کو زیادہ پڑھا۔ ہارڈ کاپی پر کون زیادہ پڑھا جا رہا ہے، اس کا اندازہ نہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا پر البتہ ہر چیز کا ریکارڈ ہے۔ کس کا کالم کتنا پڑھا گیا، کتنے ویوز ملے، کتنے منٹ تک اسے لوگوں نے پڑھا، یعنی کالم مکمل پڑھا گیا یا اس کی ابتدائی چند سطریں پڑھ کر ہی لوگ واپس پلٹ گئے۔ یہ سب چیزیں معلوم کی جا سکتی ہیں۔
ایک لحاظ سے یہ رائٹر کو زیادہ محنت کرنے، تحقیق کرنے اور متنوع نئے موضوعات پر لکھنے کے لیے اکساتا ہے۔ آپ نے نہ صرف اچھا لکھنا ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا بھی ہے، اس لیے عام فہم اور رواں لکھنا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے یہی ابلاغیات کا بنیادی اصول بھی ہے۔

 

شیئر: