Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جذباتی نعرے نہیں، ٹھوس پلان ہی کامیاب کرے گا: عامر خاکوانی کا کالم

’عرب دنیا میں سعودی عرب وہ ملک ہے جو حکمت اور دانش کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
منگول کئی حوالوں سے دنیا کی ایک منفرد قوم ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہوگی جو اس قدر سرعت اور طوفانی انداز سے اٹھی اور اس نے چند ہی برسوں میں ایک عالم کو ہلا کر رکھ دیا، حتیٰ کہ مشرق اور مغرب کی تمام بڑی طاقتیں سرنگوں ہو گئیں یا دہشت زدہ ہو کر منگول حملے سے بچنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ یہ طوفان جس قدر شدت سے اٹھا تھا، اسی طرح بیٹھ گیا۔ جلد ہی اس تندخو اور وحشی قوم کی پسپائی شروع ہو گئی اور ایک صدی کے دوران عظیم الشان منگول سلطنت کا نام و نشان ہی نہ رہا۔ زوال بھی اس قدر شدید تھا کہ پچھلے ہزار برسوں میں منگول عالمی منظرنامے پر دوبارہ نظر ہی نہیں آئے۔
مورخین منگولوں کی طوفانی پیش قدمی اور فتوحات کی سب سے بڑی وجہ منگولوں کی اعلیٰ عسکری حکمت عملی کو قرار دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم چال کو عرب مورخین نے ’تولوغمہ‘ کے نام سے یاد رکھا۔ ہوتا یہ تھا کہ جنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد منگول فوج کا درمیانی حصہ (قلب) آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگتا، دشمن فوج سمجھتی کہ شاید یہ پسپا ہو رہے ہیں اور وہ اپنا دباؤ بڑھا دیتے۔ ایک وقت آتا کہ منگول قلب باقاعدہ طور پر پسپا ہو جاتا اور فوجی گھوڑے موڑ کر بھاگ نکلتے۔
فطری طور پر دشمن لشکر خوش ہو کر ان کا پیچھا شروع کر دیتا۔ پھراچانک بھاگتے ہوئے منگول فوجی واپس پلٹ کر پوری شدت کے ساتھ حملہ کر دیتے۔ پسپائی کے اس پورے عمل کے دوران منگول لشکر کا دایاں اور بایاں بازو اپنی جگہ پر کھڑے رہتا، یوں آگے بڑھتا ہوا دشمن لشکر عملی طور پر تین اطراف سے منگول فوجیوں کے گھیرے میں آ چکا ہوتا۔ اس کے بعد دشمن لشکر کے مقدر میں ایک تباہ کن شکست ہی آتی۔ اس پسپائی اور پھر اچانک پلٹ کر حملہ کرنے کو ’تولوغمہ‘ کہا جاتا تھا۔
منگولوں نے اپنے اس حربے کے ذریعے کئی ملک فتح کیے۔ پھر یہ ہوا کہ ’تولوغمہ‘ ہی منگولوں کی پہلی اور سب سے بڑی شکست کا باعث بن گیا اور دنیا بھر کے مورخین متفق ہیں کہ اسی شکست کے بعد منگولوں کا زوال شروع ہو گیا اور وہ پھر کبھی بھی پہلی جیسی قوت اور دبدبہ حاصل نہ کر سکے۔
’تولوغمہ‘ کو منگولوں کے خلاف استعمال کرنے والا شخص ایک نامور مسلمان سپہ سالار اور حکمران رکن الدین بیبرس بندقدار تھا۔ بیبرس مملوک (غلام) سپاہی تھا، اپنی قابلیت سے وہ کمانڈر بن گیا۔ بیبرس کے لڑکپن کا خاصا عرصہ منگولوں کے ہاں غلامی میں گزرا اور وہ منگول کلچر اور جنگی رواج سے واقف تھا۔ سرخ بالوں اور نیلی آنکھوں والا بیبرس ایک انتہائی نڈر اور بے خوف انسان تھا۔
کہتے ہیں کہ وہ ایک بار بھیس بدل کر منگول لشکر پہنچ گیا اور وہاں نان بائی سے کھانا کھانے کے بعد اپنی شاہی انگوٹھی دانستہ وہاں چھوڑ دی اور بعد میں خط کے ذریعے منگول کمانڈر کو اس کی اطلاع دی تو وہ دنگ رہ گیا۔

مورخین منگولوں کی طوفانی پیش قدمی اور فتوحات کی سب سے بڑی وجہ منگولوں کی اعلیٰ عسکری حکمت عملی کو قرار دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: وکی کامنز)

بیبرس نے منگولوں کی سابقہ جنگوں پر خاصا غور کیا، وہ ان مسلمان سپاہیوں سے ملا جو منگولوں سے لڑائی میں شکست کھا چکے تھے۔ اس نے جلد ہی اندازہ لگا لیا کہ ’تولوغمہ‘ ہی منگولوں کی اصل قوت ہے۔ تب منگول خاقان منگو خان کا بھائی اور چغتائی کا بیٹا ہلاکو خان بغداد اور شام کو تباہ کر چکا تھا اور اب وہ مصر پر حملہ آور ہوا تھا۔ انہی دنوں منگول خاقان منگو خان مر گیا اور ہلاکو خان قرولتائی (ہماری مقامی اصطلاح میں گرینڈ جرگہ کہہ لیں) میں شرکت کے لیے واپس صحرائے گوبی چلا گیا، مگر وہ مصری لشکر کے مقابلے کے لیے اپنے سپہ سالار قط بوغا کو چھوڑ گیا۔
قط بوغا ایک تجربہ کار سالار تھا اوراس نے کبھی کوئی جنگ نہیں ہاری تھی۔ تین ستمبر 1260 کو فلسطینی شہر عین جالوت کے مقام پر منگول اور مسلمان لشکروں کا ٹاکرا ہوا۔
جیسے ہی منگول فوجیوں نے پہلا حملہ کیا، مسلمان لشکر کا قلب فوراً پسپا ہو گیا۔ منگول سمجھے شاید یہ خوفزدہ ہو کر بھاگ رہے ہیں، انہوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ جب منگول فوجی گھیرے میں آ گئے تو مسلمان لشکر نے اچانک پلٹ کر بڑی شدت سے حملہ کر دیا۔ حملہ اس قدر زوردار تھا کہ منگول بوکھلا گئے، اس کے بعد انہیں سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور یوں منگولوں کو اپنی تاریخ کی پہلی بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ منگول سالار قط بوغا گرفتار ہوا جبکہ ہزاروں منگول مارے گئے۔
اس جنگ کے بعد ملٹری سٹریٹیجی میں ایک نئی چال کا اضافہ ہوا، وہ یہ کہ دشمن کے سب سے طاقتور حربے کو اسی پر الٹا دینا۔ رکن الدین بیبرس بندقدار نے جس دانش مندی سے ’تولوغمہ‘ کو استعمال کیا اس نے نہ صرف مصر کو منگولوں کے قہر سے بچا لیا بلکہ بیبرس کی قائم کردہ مملوک سلطنت ہی وہ آخری قوت تھی جس نے اگلے برسوں میں مسلسل کئی صلیبی معرکے لڑے اور متحدہ یورپ کے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔

’تولوغمہ‘ کو منگولوں کے خلاف استعمال کرنے والا شخص ایک نامور مسلمان سپہ سالار اور حکمران رکن الدین بیبرس بندقدار تھا۔ (فائل فوٹو: بریٹنیکا)

عین جالوت کے معرکے کو آٹھ صدیاں ہونے کو ہیں۔ اس جنگ سے جو سبق حاصل ہوا، آج کل اس کی مسلم دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مسلم دنیا پر آج بہت سی مشکلات، آزمائشیں وارد ہیں، مسائل بے پناہ ہیں۔
ان سب کا مقابلہ مگر جذبات اور جوش سے نہیں بلکہ ہوش اور عقل مندی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اہل خرد کو غیرجذباتی ہو کر اپنے مخالفین کی حکمت عملی کا بغور مشاہدہ کر کے انہی کی چال ان پر الٹانی چاہیے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ بڑی سمجھ داری اور حکمت کے ساتھ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی پر فوکس کیا جائے، اپنے اندر وہ اہلیت اور صلاحیت پیدا کی جائے جو ہمیں دنیا میں ممتاز بنا دے۔
جذباتی ردعمل مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں اگلے 10 ,15 برس کا وقت لینا چاہیے اور اس میں تمام تر فوکس تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی پر رکھا جائے، اس کے اثرات بہت جلد سب کو نظر آئیں گے۔
عرب دنیا میں سعودی عرب وہ ملک ہے جو حکمت اور دانش کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اس نے اپنی معیشت پر توجہ دی ہے، جدید ٹیکنالوجی پر فوکس ہے، جو مستقبل میں اسے بڑی معاشی قوت بنا دیں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا یہ اہم ملک ایک نمایاں سفارتی قوت بن کر بھی ابھرا ہے۔ یہ ایک اچھا قابل تقلید ماڈل ہے، دیگر مسلم ممالک اسے فالو کر سکتے ہیں۔ یاد رکھا جائے کہ تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدان میں آگے بڑھے بغیر صرف نعرے بازی سے کچھ نہیں ہو سکتا۔

 

شیئر: