Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مری میں تیندوے کے مویشیوں پر حملوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

مری کے مختلف دیہی علاقوں میں بسنے والے شہری آج کل تیندوے کے حملوں سے سخت پریشان ہیں۔ (فوٹو: وائلڈ لائف پاکستان)
’گزشتہ 10 برس کے دوران میری 32 بکریاں اور 12 بڑے جانور (گائے، بیل) تیندوے کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مویشی اب اگر گھر سے ذرا دور بھی جائیں تو یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں تیندوا اِن پر حملہ نہ کر دے۔‘
یہ کہنا ہے مری کی یونین کونسل سہربگلہ کے گاؤں گھوئی کی ڈھوک بانڈی سے تعلق رکھنے والے چودھری ظہیر احمد کا۔
’ان برسوں میں میرے مویشیوں کا اس قدر جانی نقصان ہو چکا ہے کہ میرے لیے مالی طور پر اِس نقصان کی تلافی کرنا ممکن نہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف کے حکام میرے گھر کا دورہ بھی کر چکے ہیں، لیکن اب تک کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا گیا۔‘
پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری کے مختلف دیہی علاقوں میں بسنے والے شہری آج کل تیندوے کے حملوں سے سخت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تیندوا ان کے مویشیوں پر حملہ کرتا ہے ، جس سے انہیں بہت زیادہ مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا تیندوا جنگل سے نکل کر انسانی بستیوں میں موجود مویشیوں پر حملہ کرتا ہے یا مویشیوں کو جنگل میں، جو اس کا قدرتی مسکن ہے، چرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے جہاں وہ تیندوے کا شکار بن جاتے ہیں؟
چودھری ظہیر احمد مویشیوں پر تیندوے کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’تیندوا گذشتہ 10 برسوں میں ان کے بیسیوں مویشیوں کا شکار کر چکا ہے، اور اس وقت بھی اُن کا ایک جانور تیندوے کے حملے سے زخمی ہے۔‘
چودھری ظہیر کا گھر جنگل کے کنارے واقع ہے۔ وہ صبح اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے جنگل کی طرف چھوڑ دیتے ہیں۔

چوہدری ظہیر احمد کے مطابق تیندوا گذشتہ 10 برسوں میں ان کے بیسیوں مویشیوں کا شکار کر چکا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

اُن کا کہنا ہے کہ ’قریباً دس سال قبل تیندوے کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس وقت وہ اور ان کے آبا و اجداد بے خوف ہو کر جانور جنگل بھیج دیتے تھے کیوں کہ زمین پر اتنا چارہ نہیں ہوتا کہ جانوروں کا پیٹ بھر سکے۔‘
یہ ماضی میں اُن کے معمول کا حصہ تھا مگر اب ایسا کرنا اُن کے لیے ممکن نہیں رہا۔ وہ شام ہونے سے پہلے جانوروں کو واپس لا کر محفوظ جگہ پر باندھ دیتے ہیں۔ چودھری ظہیر کے مطابق آج کل جانوروں کو جنگل میں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ روزانہ تیندوے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور اس قدر نقصان ہونے کے بعد مزید خطرہ مول لینا ممکن نہیں بلکہ اب تو گھر کے باہر بندھے جانور بھی کبھی کبھار تیندوے کے حملے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’بیسیوں جانوروں کے نقصان سے ان کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے لیکن محکمہ وائلڈ لائف کے حکام صرف یہ مشورہ دینے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جانوروں کو جنگل نہ بھیجیں اور جنگل کے راستے پر باڑ لگا دیں تاکہ تیندوا ان کے احاطے میں داخل نہ ہو۔‘

کیا تیندوے جنگل سے نکل کر انسانی بستیوں  میں موجود مویشیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں؟

اردو نیوز نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ مری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ابرار سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ مری، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے جنگلات کو ‘مری کوٹلی ستیاں کہوٹہ نیشنل پارک’ کا درجہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں 100 سے زیادہ اقسام کے پرندے اور 30 سے زیادہ اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں، جن میں تیندوا بھی شامل ہے۔ اس علاقے کو جانوروں کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے، اور یہاں ان کا شکار سختی سے ممنوع ہے۔‘
محمد ابرار کے مطابق، تیندوا عام طور پر جنگل ہی میں شکار کرتا ہے۔ وہ ہرن، جسے مقامی زبان میں ککڑ کہا جاتا ہے، اور جنگلی سور کا شکار کرتا ہے۔

محمد ابراد کے مطابق مری، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے جنگلات کو ‘مری کوٹلی ستیاں کہوٹہ نیشنل پارک’ کا درجہ دیا گیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے کہا کہ ’تاہم، جب دیہاتی اپنی بکریاں، گائیں یا بیل جنگل میں چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، تو وہ بھی تیندوے کا شکار بن سکتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں تیندوے نے انہی مویشیوں پر حملہ کیا ہے جو جنگل میں چرنے گئے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تیندوا بعض اوقات مختلف وجوہات کی بنا پر انسانی آبادی کے قریب آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، موسمِ خزاں میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں، جن سے تیندوے اپنے مسکن سے نکل کر قریبی بستیوں کا رخ کرتے ہیں یا اپنے شکار کی بو سونگھتے ہوئے آبادی تک پہنچ جاتے ہیں۔‘

محکمہ تحفظِ جنگلی حیات پر جانور چھوڑنے کا الزام؟

ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا محکمہ تحفظِ جنگلی حیات خود تیندوا یا دیگر جانور جنگل میں چھوڑتا ہے تو محمد ابرار نے کہا کہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ محکمہ تحفظِ جنگلی حیات نے نہ تو تیندوے چھوڑے ہیں اور نہ ہی جنگلی سور۔ عام رائے کے مطابق 1992 کے سیلاب کے دوران تیندوے کشمیر کے علاقے سے بہہ کر مری کے جنگلات میں آ گئے تھے جہاں سازگار ماحول کی وجہ سے ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

کیا لوگ تیندوے مار سکتے ہیں؟

محمد ابرار کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’انسانی جان کی حفاظت سب سے مقدم ہے، اگر واقعی سیلف ڈیفنس کا معاملہ ہو تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کئی افراد اس قانون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور جان بوجھ کر تیندوے کے علاقے میں جا کر اسے ہلاک کرتے ہیں، جو ناقابلِ ضمانت جرم ہے۔‘

محمد ابرار کے مطابق تیندوا عام طور پر جنگل ہی میں شکار کرتا ہے۔ (فوٹو: وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ)

’تیندوے کا شکار یا اسے ہلاک کرنے پر پچاس لاکھ روپے تک جرمانے اور قید کی سزا ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ ایک نایاب اور محفوظ جانور ہے۔‘
اُنہوں نے تیندوے کے حملے سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مقامی شہری اپنے مویشیوں کو جنگل یا تیندوے کی حدود میں نہ جانے دیں اور ممکن ہو تو جنگل سے منسلک اپنی زمین کے اطراف میں باڑ لگائیں۔‘
’علاوہ ازیں، جانوروں کی حفاظت کے لیے تربیت یافتہ کتے رکھیں اور  پٹاخوں یا شور پیدا کرنے والے دیگر طریقوں سے بھی تیندوے کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔‘

 

شیئر: