Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں نے ایڈوینچر کیا،‘ 38 برسوں سے ٹیکسی چلانے والی راولپنڈی کی زاہدہ کاظمی

پاکستان میں مرد حضرات کا ٹیکسی سروس چلانا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس جدید دور میں بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین ٹیکسی ڈرائیورز بہت کم نظر آتی ہیں۔
ایسے میں شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ راولپنڈی کی رہائشی زاہدہ کاظمی 1987 سے ٹیکسی چلا رہی ہیں اور 2025 تک انہیں یہ کام کرتے ہوئے تقریباً 38 برس ہو چکے ہیں۔
64 برس کی زاہدہ کاظمی کے چار بچے ہیں اور وہ آج بھی اپنی ایک بیٹی کی کفالت کر رہی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں زاہدہ کاظمی نے اپنی منفرد اور حوصلہ افزا کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ سنہ 1987 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہوں نے پہلی مرتبہ کالی پیلی ٹیکسی چلانا شروع کی جو وہ 1992 تک راولپنڈی، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں چلاتی رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر، انجینیئر اور اساتذہ کی حیثیت سے تو خواتین نظر آتی ہیں لیکن گھر سے باہر نکل کر ٹیکسی چلانا یہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
’تب میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اپنی ٹیکسی چلاؤں، اور یہ شوق آہستہ آہستہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔‘
بعد ازاں 1992 میں زاہدہ کاظمی کو پہلی پیلی ٹیکسی ملی جو صرف ایئرپورٹ روٹس پر چلانے کی اجازت تھی۔
’ایئرپورٹ کے روٹس پر چلانے کے لیے مجھے این او سی اور ٹوکن جاری ہوا۔ میں ایئرپورٹ سے مختلف علاقوں تک مسافروں کو لے جاتی تھی۔‘

زاہدہ کاظمی نے 1987 سے ٹیکسی چلانے کے سفر کا آغاز کیا۔ فوٹو: اردو نیوز

ماضی کی یادوں میں جھانکتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ’1992 میں جب میں ٹیکسی چلا رہی تھی تو کچھ اخبارات نے میری کہانی شائع کی۔ یہ خبر کیپٹن صفدر کے ذریعے اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف تک پہنچی، جس پر مجھے وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا، خراجِ تحسین پیش کیا گیا، اور ایک ہنڈائی گاڑی بطور تحفہ دی گئی۔‘
زاہدہ کاظمی کو کچھ عرصہ قبل فالج کا حملہ بھی ہوا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اپنی گاڑی کو آٹومیٹک ٹرانسمیشن میں تبدیل کیا اور ٹیکسی چلانا جاری رکھا۔ ان کے مطابق یہ ان کا شوق بھی ہے اور مجبوری بھی۔
وہ آج بھی بکنگ پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں پِک اینڈ ڈراپ سروس دیتی ہیں۔ جبکہ ناران، کاغان، کشمیر، سوات جیسے دور دراز سیاحتی علاقوں میں بھی مسافروں کو لے کر جاتی ہیں۔
’مسافروں کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ گاڑی کوئی خاتون چلا رہی ہے یا مرد‘
زاہدہ کاظمی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں عام طور پر خواتین کی ڈرائیونگ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، لیکن میں نے کبھی کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ گاڑی ایک عورت چلا رہی ہے۔ خواتین بھی مردوں کی طرح ہر جگہ گاڑی چلا سکتی ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ شروع کے دنوں میں کچھ نوجوانوں نے ان پر آوازیں کسیں، تو انہوں نے گاڑی ریورس کر کے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’خبردار، میرے بارے میں کچھ غلط مت کہنا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ان کا تجربہ مثبت رہا اور کئی خواتین نے ان سے متاثر ہو کر مختلف شعبوں میں قدم رکھا۔
 

 زاہدہ کاظمی 38 برسوں سے ٹیکسی چلا رہی ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

ایک ناخوشگوار واقعہ شیئر کرتے ہوئے زاہدہ کاظمی نے بتایا کہ انہوں نے ایک مرتبہ ایئرپورٹ سے دو افراد کو اپنی ٹیکسی میں بٹھایا لیکن بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ وہ انہیں نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔
’وہ پشتو میں گفتگو کر رہے تھے جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ میں نے فوری طور پر گاڑی یو ٹرن لی اور بہانہ بنا کر واپس ایئرپورٹ چلی گئی گئی۔ ایئرپورٹ پر موجود انسپکٹر کو اطلاع دی جنہوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس طرح میں کسی بڑے حادثے سے بچ گئی۔‘
اپنی گفتگو کے اختتام پر زاہدہ کاظمی نے خواتین کے لیے پیغام میں کہا کہ پیشہ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، اگر خواتین کسی شعبے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو ضرور مححنت کریں اور آگے بڑھیں۔

شیئر: