Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ’برینڈز کی بھرمار‘ مگر غیرمعیاری کپڑے فروخت کیے جانے کی شکایات عام

مشہور فیشن ڈیزائنر فرح آغا کے مطابق برینڈز کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر معیار پر توجہ نہیں۔ فائل فوٹو: فیشن ڈیزائن فیس بک
آپ نے اگر شادی کے لیے خریداری کرنی ہو یا کسی تہوار کے موقع پر بازار جانا ہو تو مارکیٹ میں آپ کو کپڑوں کے کئی ایسے برینڈز نظر آئیں گے جو ’معیار‘ کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تاہم پاکستان میں حالیہ دنوں میں برینڈز کے نام پر بالخصوص خواتین اور بالعموم مردوں کے مہنگے مگر غیرمعیاری کپڑے فروخت کیے جانے کی شکایات بھی عام ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ شکایات عام صارفین تک محدود نہیں بلکہ اراکینِ پارلیمان بھی اس مسئلے پر نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ صرف عوامی شکایت نہیں بلکہ ان کا ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔‘
ان کے مطابق مارکیٹ میں برینڈز کی بھرمار تو ہے مگر معیار وہی پرانا ہے، البتہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل اگر آپ کسی عام برینڈ پر بھی جائیں تو وہ بتاتے ہیں کہ کپڑا باہر سے منگوایا گیا ہے، ڈالر مہنگا ہو گیا ہے، حالانکہ حقیقت میں ان کے کپڑے کا ڈالر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بس برینڈ کے نام پر قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔‘
اُنہوں نے بتایا کہ ’مقامی برینڈز نے بھی قیمتیں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ امیر آدمی کے لیے بھی خریداری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
ان کے بقول حکومت کو مارکیٹ میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام مؤثر بنانا چاہیے تاکہ نہ صرف معیار یقینی بنایا جا سکے بلکہ قیمتیں بھی معقول رکھی جائیں۔
یہ تو تھی ایک رکنِ اسمبلی کی بات لیکن اسلام آباد کی رہائشی سمرین قریشی (فرضی نام) بھی کچھ اسی قسم کا تجربہ بیان کرتی ہیں۔
وہ حالیہ دنوں ایک بڑے شاپنگ مال سے گرمیوں کے لیے کپڑے خریدنے گئیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پرانے اور نئے برینڈز کے پانچ جوڑے خریدے، لیکن پہننے کے بعد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں کپڑوں کا ناقص معیار کھل کر سامنے آ گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ میں یوں تو خواتین کے بہت سے برینڈز آ گئے ہیں لیکن یہ صرف ’نام‘ پر چل رہے ہیں، معیار میں بہتری نہیں آ رہی۔ اور قیمت بھی خوب وصول کرتے ہیں۔‘
لیکن یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا پاکستان میں کپڑوں کے برینڈز کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی ادارہ موجود ہے؟
پاکستان میں کاروبار کرنے والی مختلف کمپنیاں عمومی طور پر اپنی رجسٹریشن سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں کرواتی ہیں۔ اسی طرح اگر مختلف برینڈز کسی کمپنی کا حصہ ہیں تو ان کی رجسٹریشن بھی ایس ای سی پی میں ہوتی ہے۔ تاہم ایس ای سی پی صرف رجسٹریشن کے معیار تک کمپنیوں کی نگرانی کرتی ہے یعنی ایس ای سی پی کپڑوں کے برینڈز کو ریگولرائز نہیں کرتا۔
علاوہ ازیں مارکیٹ میں اشیا کے معیار اور قیمتوں کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔
وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’مقامی مارکیٹ میں کپڑوں کی قیمتوں کے حوالے سے حکومت کا کوئی براہ راست کنٹرول نہیں ہوتا، بلکہ قیمتوں کا تعین مارکیٹ خود کرتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں مجموعی معاشی صورتِ حال، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہی قیمتوں میں اضافے یا کمی کا سبب بنتا ہے۔‘

معروف فیشن ڈیزائنر منیب نواز کہ پاکستان میں زیادہ تر برینڈز دل سے کام نہیں کرتے۔ فائل فوٹو

تاہم اردو نیوز کے معلوم کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں ایک سرکاری ادارہ موجود ہے جس کا نام ’انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ (آئی پی او) ہے جہاں مارکیٹ میں نئے کھلنے والے مختلف ملبوسات کے برینڈز، فوڈ چینز اور دیگر کاروبار اپنی رجسٹریشن کرواتے ہیں۔
آئی پی او کے ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا منیر حسین نے رابطہ کرنے پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئی کمپنی جب مارکیٹ میں اپنا کاروبار شروع کرتی ہے تو اس کے لیے یہ فائدہ مند ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمپنی کا ٹریڈ مارک لائسنس آئی پی او سے حاصل کرے۔ یعنی اگر کوئی کمپنی اپنی ٹریڈ مارک رجسٹریشن مکمل کرواتی ہے اور اسے لائسنس مل جاتا ہے تو اس کے بعد وہ کمپنی اس نام سے قانونی طور پر اپنا کاروبار کر سکتی ہے اور کوئی دوسرا اس نام کو استعمال نہیں کر سکتا۔‘
اسی طرح پاکستان میں مختلف کمپنیاں بشمول معروف برینڈز، آئی پی او میں اپنی رجسٹریشن کرواتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’کسی کمپنی کا ٹریڈ مارک جب آئی پی او میں رجسٹر ہوتا ہے تو اس کمپنی کے خلاف شکایت کرنے کے لیے متعلقہ فریق آئی پی او سے رجوع کر سکتا ہے۔ کسی کمپنی یا کپڑوں کے برینڈ نے اگر ناقص معیار، غیرمعمولی قیمتیں یا خراب مٹیریل استعمال کیا ہو، تو اس کے خلاف شکایت آئی پی او میں درج کروائی جا سکتی ہے، جو کہ اس شکایت کو متعلقہ اداروں مثلاً ایف آئی اے یا پولیس کو بھیج دیتا ہے، اور اس کے بعد اس پر قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔‘
اردو نیوز نے اس رجحان کی حقیقت جاننے کے لیے مشہور فیشن ڈیزائنر فرح آغا سے رابطہ کیا جو اپنے نام سے برینڈ بھی چلاتی ہیں۔
فرح آغا نے تسلیم کیا کہ برینڈز کی تعداد ضرور بڑھی ہے، لیکن معیار پر وہ توجہ نہیں دی جا رہی جو دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے برینڈ کی قیمتیں شاید کم نہ ہوں لیکن ہم معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب ہر دوسرا شخص صرف نام بنا لیتا ہے، مگر کوالٹی پر کام نہیں کرتا۔‘
فرح آغا کا کہنا تھا کہ کچھ برینڈز کے کپڑے بس ایک دھلائی کے بعد ناکارہ ہو جاتے ہیں جس سے صارفین کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ ان کے مطابق آن لائن برینڈز پر بھی اب لوگ پہلے جیسا بھروسا نہیں کرتے۔

پاکستان میں مختلف کمپنیاں بشمول معروف برینڈز، آئی پی او میں اپنی رجسٹریشن کرواتی ہیں۔ فائل فوٹو: فیشن ڈیزائن فیس بک پیج

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قوتِ خرید ویسے ہی کم ہے مہنگے کپڑے خرید کر بھی اگر معیار نہ ملے تو یہ ایک پریشان کن امر ہے۔
حکومتی کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فری مارکیٹ اکانومی میں حکومت کا عمل دخل کم ہوتا ہے مگر ملک کی معیشت اگر بہتر ہو جائے اور صارفین کے پاس متبادل آپشنز موجود ہوں تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔
معروف فیشن ڈیزائنر منیب نواز جو اپنے نام سے برینڈ چلاتے ہیں، نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں ’99 فیصد برینڈز دل سے کام نہیں کر رہے۔‘
ان کے مطابق آج کل ہر دوسرا شخص چاہتا ہے کہ وہ کوئی برینڈ بنا لے، چند کپڑے کسی ٹیلر سے سلوائے، ماڈلنگ کروائے اور ویب سائٹ یا دکان پر فروخت کے لیے لگا دے۔ مگر یہ سب صرف دکھاوا ہوتا ہے۔ معیار کہیں گم ہو جاتا ہے۔
منیب نواز نے کہا کہ معیار کی کمی کی ایک بڑی وجہ دکان داری کا رجحان ہے جس کے باعث برینڈ صرف اس لیے بنایا جاتا ہے کہ روز کی دیہاڑی نکل آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ صارف کے پاس ہمیشہ یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کس برینڈ کا کپڑا خریدے اور کس کا نہ خریدے۔
’کوئی برینڈ اگر ناقص کوالٹی دے رہا ہے اور قیمت زیادہ ہے، تو صارفین خریداری بند کر دیں گے تو وہ برینڈ خود ہی ختم ہو جائے گا۔‘
منیب نواز کے مطابق اس وقت پاکستان میں برینڈز کی بھرمار ہے لیکن معاشی بحران کی وجہ سے صارفین کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً ہر برینڈ اپنی بقا کے لیے کوئی بھی حربہ آزمانے پر مجبور ہے۔

 

شیئر: