Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سولر سسٹم میں استعال ہونے والے سامان کی چوری اور چھینا جھپٹی کے واقعات میں اضافہ

پاکستان میں سولر انرجی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث جہاں مارکیٹ کا حجم بڑھا ہے، وہیں سولر انرجی کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات کی چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تازہ ترین واقعے میں کراچی سے اوکاڑہ جانے والا سولر پلیٹس سے بھرا ٹرک راستے سے ہی مبینہ طور پر غائب ہو گیا، جبکہ ٹرک کے دو ڈرائیورز بھی تاحال لاپتا ہیں۔ ٹرک میں موجود سولر پلیٹس کی مالیت ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
کراچی کے ضلع کیماڑی کے جیکسن پولیس سٹیشن میں علی رفیق نامی شہری نے مقدمہ درج کروایا ہے کہ چین سے درآمد کیے گئے سولر پینلز سے لدے پانچ ٹرکوں میں سے ایک ٹرک کا مال مبینہ طور پر ٹرک ڈرائیور نے خردبرد کرلیا ہے۔
پولیس کو دی گئی تفصیلات میں مزید بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کو چین سے کراچی کی بندرگاہ پر آنے والے پانچ سولر پینلز کے کنٹینرز پورٹ سے کلیئر ہوئے، جو کراچی سے پنجاب کے لیے روانہ کیے گئے۔ ان پانچ ٹرکوں میں سے چار اپنی منزل پر پہنچ گئے جبکہ ایک ٹرک اپنی منزل اوکاڑہ نہیں پہنچ سکا۔
درخواست گزار نے پولیس کو مزید بتایا کہ ٹرانپسورٹ کمپنی کے ساتھ ان کی کمپنی کئی برسوں سے کاروبار کررہی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی پورٹ سے کنٹینرز کلیئر ہونے کے بعد سامان بذریعہ سڑک پنجاب کے مختلف شہروں میں منتقل کیا جارہا تھا۔
متاثرہ ٹرک کے مالک محمد ابرار کے مطابق ان کا ٹرک 23 مئی کو کراچی سے روانہ ہوا تھا۔ ٹرک میں 610 واٹ والی 720 سولر پلیٹس لدی تھیں، جو اوکاڑہ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ چند گھنٹوں بعد ہی ان کا ڈرائیورز سے رابطہ ختم ہو گیا۔ کئی دنوں بعد پتا چلا کہ خالی ٹرک شکارپور کے فوجداری تھانے کے قریب لاوارث کھڑا ہے، لیکن پولیس مقدمہ درج  نہیں کر رہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نہ صرف پلیٹس غائب ہیں بلکہ دونوں ڈرائیورز کی زندگی کے حوالے سے بھی شدید خدشات ہیں۔
صدر مارکیٹ کے دکاندار خوف زدہ
کراچی کے صدر میں واقع الیکٹرانک اور سولر مارکیٹ کے دکاندار بھی مسلسل وارداتوں کے باعث سخت خوف میں مبتلا ہیں۔ خاص طور پر وہ دکاندار جو رکشوں، سوزوکی یا چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے شہر کے دیگر علاقوں میں مال بھیجتے ہیں، خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔

دکاندار حمزہ مختار کا کہنا تھا کہ اصل خطرہ تب ہوتا ہے جب سامان دکان سے باہر نکلتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

صدر مارکیٹ میں سولر پینلز اور دیگر متعلقہ سامان بیچنے والے ایک دکان دار محمد صائم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم روزانہ 5 سے 10 آرڈرز شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے بھجواتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں دو مرتبہ ہمارے ڈرائیورز کو راستے میں روکا گیا، اور سامان چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اب تو ہم صرف جان پہچان والے گاہکوں کو ہی ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔‘
اسی مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک اور دکاندار حمزہ مختار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی دکان میں لاکھوں روپے کے سولر پینلز سٹاک کر رکھے ہیں، لیکن اصل خطرہ تب ہوتا ہے جب سامان دکان سے باہر نکلتا ہے۔ شہر میں اس وقت کوئی علاقہ محفوظ نہیں، اور چوروں کو پولیس کا کوئی خوف نہیں۔‘
دکان داروں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ’سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریز جیسا سامان با آسانی فروخت ہو جاتا ہے، خریدار اکثر بل اور وارنٹی کے بغیر سستا سامان خریدنے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چوروں کو فوری خریدار مل جاتے ہیں اور لوٹا گیا سامان با آسانی فروخت ہو جاتا ہے۔‘
متاثرین اور دکان داروں کی بڑی شکایت پولیس کے رویے سے متعلق ہے۔ محمد ابرار کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تھانے سے رجوع کیا تو پولیس نے رسمی کارروائی سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ پولیس نے کہا کہ ٹرک چونکہ لاوارث حالت میں ملا ہے، اس لیے اغوا یا ڈکیتی کی دفعہ نہیں لگ سکتی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کروڑوں کا مال اور ڈرائیورز دونوں لاپتا ہیں۔
شکارپور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی محمد زاہد نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ مقامی پولیس کو ایک لاوارث ٹرک ملا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس ٹرک پر سولر پینلز لوڈ کیے گئے تھے جو پنجاب منتقل کیے جا رہے تھے۔

متاثرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس سولر پینلز کی ترسیل کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے (فوٹو: اے پی پی)

ان کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ کراچی میں درج کیا گیا ہے اور وہاں سے ایک تحقیقاتی ٹیم جلد شکارپور پہنچ رہی ہے، جس کے بعد اس کیس میں مزید پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔
متاثرین، دکانداروں اور سولر کے کاروبار سے وابستہ افراد کا مطالبہ ہے کہ پولیس سولر پینلز اور متعلقہ سامان کی ترسیل کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ سخت کی جائے اور بلیک مارکیٹ میں چوری شدہ سامان بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
علاوہ ازیں ٹرانسپورٹ اور ڈلیوری نیٹ ورک کو مقامی تھانوں سے رجسٹر کرایا جائے تاکہ نگرانی ممکن ہو سکے۔
متبادل توانائی پاکستان کی توانائی کی ضرورتوں کا ایک اہم حل بن چکی ہے، لیکن اس شعبے میں اگر سرمایہ کاری اور کاروبار غیرمحفوظ ہو گا تو اس کا براہ راست اثر نہ صرف معیشت بلکہ عام شہریوں پر بھی ہو گا۔

 

شیئر: